مشہور مقولہ ہے کہ کسی قوم کی عظمت اور اس کی اخلاقی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے ہاں جانوروں کے ساتھ کس قسم کا برتاو¿ کرتے ہیں۔ قیام پاکستان سے 76 برس کے سفر کا خلاصہ یہ ہے کہ اِس دوران جانوروں سے حسن سلوک کی بہت ہی کم مثالیں دیکھنے میں آئی ہیں اور یقینا کوئی ایسی باعظمت یا اخلاقی مثال موجود نہیں ہے جسے فخریہ طور پر پیش کیا جا سکے۔ یہ بات اپنی جگہ توجہ طلب ہے کہ کوئی بھی شخص معقول طور پر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا ہے کہ پاکستان میں جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے۔ برفانی چیتے جیسی متعدد مقامی نسلوں کو غیر قانونی شکار اور رہائش گاہوں کی تباہی کی وجہ سے معدومیت کا سامنا ہے۔ قید میں موجود جانوروں کے ساتھ اکثر بدسلوکی کی جاتی ہے اور یہ بدسلوکی اگر منظرعام پر آ بھی جائے تو اِسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ بندروں کو اکثر غیر قانونی طور پر پکڑکر سمگل کیا جاتا ہے۔ جانوروں پر ظلم و ستم کے تازہ ترین واقعے میں گزشتہ ہفتے بلوچستان میں نامعلوم افراد نے انڈس ریور کی نایاب ڈولفن کو گولی مار کر ہلاک کیا۔ ڈولفن کے قتل کے پیچھے محرک کیا تھا اور اِس بے ضرر جانور کو کیوں قتل کیا گیا۔ یہ چند ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات تلاش کرنے چاہیئں۔دریائے سندھ ڈولفن خطرے سے دوچار نسل ہے اور دنیا میں میٹھے پانی کی ڈولفن کی صرف چار اقسام میں سے ایک ہے جو مبینہ طور پر اسے غیر پائیدار ماہی گیری‘ نہروں کی کھدائی اور اس کے میٹھے پانی کی رہائش گاہوں میں فضلے کے اخراج جیسے خطرات کا سامنا کر رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ زراعت کے لئے ڈیموں‘ آبی ذخائر اور بیراجوں کی توسیع کی وجہ سے ڈولفن مچھلیوں کی تعداد میں گزشتہ چند برس کے دوران تیزی سے کمی آئی ہے اور جس سے دریائے سندھ کے نچلے علاقوں میں ان کا قدرتی مسکن کم ہو گیا ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کا اندازہ ہے کہ دنیا میں صرف دو ہزار ڈولفن باقی ہیں۔دریائے سندھ کی ڈولفن کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ کرہ ارض پر زیادہ تر جنگلی جانوروں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف لیونگ پلینٹ رپورٹ دوہزاربائیس میں کہا گیا تھا کہ اُنیس سے ستر سے جنگلی جانوروں کی انواع و آبادی میں 69 فیصد کمی آئی ہے تاہم جنگلی حیات کا تحفظ ہماری قومی ترجیحات کی فہرست نہیں اور بہت سے لوگوں کو اِس بات میں کچھ بھی غلط نظر نہیں آتا کہ وہ جانوروں کا شکار کریں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں زیادہ تر آبادی کو رہائش یا پانی جیسی بنیادی ضروریات تک رسائی حاصل نہیں‘ جانوروں کی فلاح و بہبود میں سرمایہ کاری اور اِسے قومی ترجیح بنانا اپنی جگہ مسئلہ اور مشکل ہے۔