نلکوں میں زہر 

عنوان چونکا دینے والا ہے لیکن اس میں حیرت اور تعجب کی کوئی بات نہیں روزنا مہ آج کا شذرہ بھی اس کی شہا دت دیتا ہے اور محکمہ صحت کے تمام سروے یا جا ئزے اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں ایک جا ئزے کے مطا بق خیبر پختونخوا کے بڑے شہروں کو با لعموم اور صوبائی دار الخلا فہ پشاور کو با لخصوص زہر آلو د پا نی کی وجہ سے گونا گوں بیما ریوں کا سامنا ہے ‘اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو نیسف نے خد شہ ظا ہر کیا ہے کہ صو بائی دارالحکومت میں نو مو لود بچوں کا یر قان زہر آلو د پا نی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطا بق گردوں اور پھیپھڑوں کے ساتھ ساتھ ، دل ، جگر اور آنتوں کی 64فیصد بیما ریاں زہر آلود پا نی کی وجہ سے پھیلتی ہیں ‘بین الاقوامی معیار کا تقا ضا ہے کہ حفظان صحت کے اصولوں کی روشنی میں دھات کے پا ئپوں کو ہر 50سال بعد زنگ لگ جا تا ہے‘ اگر 50سال بعد پائپوں کو تبدیل نہ کیا گیا تو زنگ آلود پائپوں کا زہر پا نی میں شا مل ہو جا تا ہے‘ ایسا پا نی انسا نی استعمال کے قابل نہیں رہتا‘ پشاور کے نلکوں کو دو اقسام کے گھمبیر مسائل کا سامنا ہے پہلا مسئلہ یہ ہے پشاور کی کم از کم 25لا کھ آبا دی ایسے نلکوں کا پا نی پیتی ہے جن کو بچھا ئے ہوئے سو سال ہو گئے ہیں ، یہ تانبے کے پائپ ہیں اور ان کو 50سال پہلے زنگ لگ چکا ہے دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پشاور کی پوری آبادی ایسے نلکوں کا پا نی پیتی ہے جن کے پائپ گٹر اور گندے نا لے سے گذر کر آتے ہیں ‘فٹنگ اور جو ڑ میں بے شمار نقا ئص کی وجہ سے گٹر اور گندی نا لےوں کا آ لو دہ پا نی پا ئپ میں داخل ہو تا ہے اور نلکوں میں آجا تا ہے‘ یہ پا نی صحت کے لئے مضر ہو تا ہے لیکن شعور اور آگا ہی کے فقدان کی وجہ سے شہر ی اس آلو دہ پا نی کو اپنی روز مرہ خوراک میں استعمال کر تے ہیں‘ اخبار بین حلقوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ قیا م پا کستان سے پہلے جن لو گوں کی حکومت تھی ان حا کموں نے شہریوں کو صاف ستھرا پا نی مہیا کرنےوالے محکمے کا نا م پبلک ہیلتھ انجینئرنگ رکھا تھا ‘ قیا م پا کستان کو 75سال بیت گئے ، محکمے کا خوب صورت اور با معنی نا م رکھنے والے لو گ ملک چھوڑ کر چلے گئے‘ محکمے نے صحت بخش پا نی کی جگہ زہر آلود پا نی فراہم کرنا شروع کیا‘ کتنی ستم ظریفی ہے کتا بوں میں لکھا ہے دنیا نے ترقی کر لی ہم بھی ترقی کے راستے پر گامزن ہیں حقیقت میں سب نے ترقی کر لی ہم نے کوئی ترقی نہیں کی ‘ ہمارا دفتری نظا م انگریزوں کے دور سے بد تر ہو گیا ہے ، ہمارے پینے کا پا نی 100سال پہلے سے بد تر ہو چکا ہے اب رہ رہ کر وہ زما نہ یا د آتا ہے جب لو گ ندی نا لوں ، نہروں اور چشموں پر جا کر صاف پا نی پیتے تھے بیشک دنیا نے ترقی کر لی ہے مگر ہم نے کوئی ترقی نہیں کی ہم بہت پیچھے چلے گئے اگر قانون پر عمل ہوتا اگر منصو بہ بندی کے تحت ترقیا تی وسائل کی تقسیم ہو تی اگر دفتری نظام میں انگریزوں کے زما نے کی طرح کا م ہو جا تے تو پشاور میں 100سا ل پہلے بچھا ئے ہوئے پائپ 2023ءتک دوبار تبدیل ہو چکے ہوتے گٹر اور سیوریج لائنوں کے اندر سے پائپ گذار نے پر انجینئر وں کو با قاعدہ سزائیں دی جاتیںتو ایسا ہر گز نہ ہو تا