تاریخ کی کتاب کا ایک ورق 

آپ جونہی بنوں سے میران شاہ جانے والی سڑک پر سفر شروع کرتے ہیں تو تقریباً 17 کلومیٹر کاسفر طے کرنے کے بعد سڑک کے بائیں جانب آپ کو ایک قلعہ نما بڑی پکٹ کی عمارت نظر آتی ہے جس میں ایک بڑے عرصے تک ٹوچی سکاﺅٹس کا قیام تھا، فرنگیوں کے دور میں البتہ یہاں گورے فوجی رہا کرتے تھے اس پکٹ میں کسی وقت برطانیہ کے ایک سابق وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل بھی کچھ عرصہ بطور فوجی رہے ہیں یہ پکٹ چونکہ جس علاقے میں واقع ہے وہ کجھوری کے نام سے مشہور ہے لہٰذا اسے کھجوری پکٹ کہا جاتا ہے اور یہ پکٹ شمالی وزیرستان اور بنوں ایف آ ر کی سرحد پر واقع ہے‘1935 ءتک شمالی وزیرستان کے امن عامہ کا یہ عالم تھاکہ اس پکٹ میں تعنیات فرنگی فوجی تفریح طبع کے واسطے رات کو اپنی موٹر سائیکلوں پر 22 میل کا سفر طے کرکے بنوں کنٹونمنٹ میں واقع ریگل سینما میں انگریزی فلم کا آخری شو دیکھنے جایا کرتے تھے اور آدھی رات کو شو دیکھنے کے بعد واپس کھجوری آتے تھے یہ بات کسی کو آج کی جائے تو وہ اسے کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا یہ امن عامہ جس وجہ سے خراب ہوااس کا تذکرہ اب ہم کرنے جارہے ہیں بنوں کے ایک گاﺅں میں رام چکوری نامی ایک دوشیزہ 1935 ءمیں اپنے گاﺅں کے ایک مسلمان جوان نور علی شاہ کے عشق میں گرفتار ہوئی اور اسلام قبول کر کے اس سے شادی کرلی اس کا اسلامی نام اسلام بی بی رکھا گیا اس کی والدہ نے پولیس کو یہ کہہ کر نور علی شاہ کے خلاف رام چکوری کو اغوا کرنے کا پرچہ کٹوا دیا کہ اس کی بیٹی نابالغ ہے جب اس کا طبی معائنہ کرایا گیا تو وہ نابالغ نکلی ‘فرنگی مجسٹریٹ نے نور علی شاہ کو اغواہ کے جرم میں تین سال قید کر دیا اور رام چکوری کو اس کی ماں کے حوالے کردیاجو اسے لے کر بنوں سے باہر کسی نامعلوم مقام کی طرف لے گئی‘ پر جاتے جاتے اس کا نام دوبارہ رام چکوری رکھ دیا اور اسے دوبارہ ہندو دھرم میں داخل کر دیا جب نور علی شاہ تین سال کی قید کاٹ کر باہر آیاتو اس کا دنیا میں جی نہیں لگ رہا تھا اس کی والدہ نے اس کا غم غلط کرنے کے لئے اس کی دوسری شادی کروا دی پر پھر بھی وہ رام چکوری کی تلاش میں ہندوستان چلا گیا کہ شاید اس کی ماں اسے ہندوستان لے گئی ہو آج تک کسی کو یہ پتہ نہیں چل سکا ہے کہ وہ کہاں غائب ہو گیا اسلام بی بی کو دوبارہ ہندو دھرم اختیار کروانے پر بنوں کے مذہبی حلقوں میں سخت عوامی رد عمل ہوا فرنگیوں کے خلاف ایک تحریک نے جنم لیا جس کی قیادت فقیر آف ایپی نے کی کہ جو بنوں کے ساتھ جڑے ہوئے شمالی وزیرستان کے مکین تھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد بھارت نے افغانستان کے توسط سے یہ کوشش کی کہ کسی نہ کسی لالچ کے ذریعے وہ انہیں قبائلی علاقوں میں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے پاکستان کے خلاف استعمال کرے پر فقیر آف ایپی نے اس کا آ لہ کار بننے سے انکار کر دیا جب جنرل سکندر مرزا پاکستان کے صدر تھے تو ان کی یہ خواہش تھی کہ فقیر آف ایپی پہاڑوں سے نیچے اترآئیںان کا پاکستان کہجس شہر میں بھی جی چاہتا ہو حکومت کی طرف سے ان کو جائے رہائش فراہم کر دی جائے پر جب سکندر مرزا کی حکومت کا تختہ الٹا دیا گیا تو حکومت کا اس ضمن میں فقیر آف ایپی سے گفت و شنید کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔