پاکستان میں انسانی اعضا ءکی غیرقانونی پیوندکاری اور انسانی اعضا ءکی خریدوفروخت کا غیرقانونی و منظم کاروبار پھر سے پھیلنے کی اطلاعات ہیں۔ ایک عرصے کے بعد ’ٹرانسپلانٹ ٹورازم‘ کہلانے والا کاروبار پھر سے عروج پر ہے‘ ٹرانسپلانٹ ٹورازم کی اصطلاح سے مراد غیر ملکیوں کی طرف سے دوسرے ملک کا دورہ ہوتا ہے جو خاص طور پر مقامی عطیہ دہندگان سے خریدے گئے اعضاءکا ٹرانسپلانٹ کروانے آتے ہیں‘پاکستان میں اعضاءکی پیوندکاری کا مرکز ’لاہور‘ ہے تاہم یہ کاروبار کرنے والے ملک کے دیگر حصوں میں بھی پھیلے ہونے کا انکشاف ہوا ہے‘ پنجاب کے ’آرگنائزڈ کرائم یونٹ‘ نے حال ہی میں لاہور شہر میں اعضاءکی پیوند کاری کے بڑے غیر قانونی گروہ کا پردہ فاش کیا جسے دبئی سے تین سینئر پاکستانی ڈاکٹر چلا رہے تھے‘ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ وہ لاہور کی ڈیفنس ہاو¿سنگ اتھارٹی کے ایک فارم ہاو¿س میں گردے کی پیوند کاری کے لئے غیر ملکی کرنسی میں بھاری رقم وصول کرتے تھے‘پولیس نے دعویٰ کیا کہ گینگ کا سرغنہ‘ جو پہلے سے ہی غیر قانونی پیوند کاری کرنے کے لئے شہرت رکھتا ہے اور اِس کے ساتھی دبئی (متحدہ عرب امارات) میں مقیم ہیں‘ سال دوہزار سات میں ایک قانون منظور کیا گیا جس کے ذریعے انسانی اعضاءکی خریدوفروخت اور اس کے ٹرانسپلانٹ کو قانوناً جرم قرار دیا گیا سال دوہزاردس میں پارلیمنٹ نے ایک اور قانون کو منظور کیا تاکہ عالمی سطح پر پاکستان جو کہ اعضاءکی غیرقانونی پیوندکاری کے لئے شہرت رکھتا ہے اِس کی بدنامی کو روکا جا سکے‘ اس قانون سازی کے بعد ٹرانسپلانٹ ٹورازم اور ہر لحاظ سے اندرون ملک غیر قانونی پیوند کاری میں فوری کمی دیکھی گئی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اور دیگر متعلقہ حکومتی اداروں کی لاپرواہی کی وجہ سے اعضاءکی خریدوفروخت کا دھندا ایک مرتبہ پھر عروج پر ہے۔ اِس دھندے میں وہ ایجنٹ شامل ہوتے ہیں جو اعضاءکی پیوند کاری کے خواہشمند افراد کی اِن خفیہ خدمات تک رسائی ممکن بناتے ہیں۔ شہری رہائشی علاقوں میں عارضی ’ٹرانسپلانٹ سنٹرز‘ قائم کئے جاتے ہیں اور جب اِس بارے میں عالمی ذرائع ابلاغ رپورٹ کرنے لگے تو پاکستان حکومت نے بین الاقوامی دباو¿کی وجہ سے اعضا ءکی خریدوفروخت اور اسمگلنگ کرنے والے گروہوں کے خلاف کریک ڈاو¿ن کیا لیکن یہ کریک ڈاو¿ن زیادہ وسیع پیمانے پر نہیں تھا اور نہ ہی اِسے مکمل کیا گیا تاہم حالیہ چند برسوں کے دوران اعضاءکی پیوندکاری میں کچھ کمی آئی اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے چندڈاکٹروں کا سراغ لگایا گیا۔ بہت سے لوگوں کو پکڑا گیا اور ان پر فرد جرم عائد بھی کی گئی لیکن عادی مجرموں‘ کم از کم طبی پیشہ ور افراد کو مو¿ثر طریقے سے کاروبار سے الگ نہیں کیا جا سکا‘ آخر ایسا کیوں نہیں ہو سکا اِس حوالے سے سوال پوچھنے کی ضرورت ہے۔