شہر کا حال کیا سنائیں ۔ اس کی تصویر کیا بتلائیں ۔ جائیں گھر جا کر سوجائیں۔ اگر باہر آئیں تو وہی دل کو جلائیں روح کو گھلائیں ۔ہر سُو ایک ابتری پائیں جس کا نہ کوئی حل ہے۔کس کو سمجھائیں کہ بھائی میرے ٹریفک گھنی ہے ایسے نہ آئیں یوں نہ جائیں مگر ” کون سنتا ہے کہانی میری اور پھر وہ بھی زِبانی میری“رنگ روڈ پر میرے پاس سے ستر کی سپیڈ سے ٹراتا ہوا موٹر سائیکل گزرا اور برق رفتاری سے کہیں سے کہیں پہنچ گیا‘ جاتا ہوا نظر تو آتا تھا مگر ساتھ اس کے سائیلنسر کی آواز بھی دور دراز سے سنائی دیتی تھی وہ آواز جو پاس سے گزرتے وقت کانوں کے پردوں کے پھاڑ دینے والی تھی ۔ کس کس کے سینے میں اپنا دل ڈالیں کون سمجھتا ہے۔چھوٹی گاڑی ہے دو پہیے ہیں اس کو تو سڑک کے انتہائی بائیں جانب وہ بھی آہستہ روی سے جانا چاہئے مگر وہ تو سڑک کے انتہائی دائیں جانب جہاں سے ہیوی گاڑیاں گزرتی ہیں یوں گزرا جیسے رستم و سہراب کی کمانوں سے نکلا ہوا تیر گزرا ہو جیسے امیر تیمور نے کوئی جلتا ہوا انگار تیر کی نوک پر لگا کر دشمنوں کے درمیان پھینک دیا ہو۔ اس کے بعد جو منظر دیکھا وہ تو اس سے زیادہ عجیب تھا رکشے کے سائیلنسر کی آواز بھی تیز تھی مگر اتنی تو نہ تھی مگر دھواں دھار آواز جس میں سے دنیا جہان کا کاربن سڑک کی فضا¶ں میں چھوڑا جا رہا تھا جیسے جراثیم کش ادویہ کو پانی میں مکس کر کے اس کا سپرے کرنے کو ا س قسم کے رکشے سرکار کی طرف سے یومیہ اجرت پر لئے گئے ہوں‘ہمارے ہاں ہر قسم کی آلودگی ہے‘ فضا ہے تو اس میں اصلیت نہیں ہے‘دھواں اور دنیا جہان کی دھول ہے ‘گردو غبار ہے پھر وہ گرد الگ جو گاڑیوں کے ٹائروں سے نکل کر ہوا میں پھیل رہی ہے‘رنگ روڈ پر سے روزانہ لاکھوں نہیں تو ہزاروں سے کچھ اوپر گاڑیاں گزرتی ہیں‘ جن کے پایوں میں سے دھول مٹی گرد نکل کر ہوا میں پھیل جاتے ہیں اور یہاں کی فضا خالص نہیںرہتی ‘یہاں اگر آپ کا خیال ہو کہ آکسیجن میں سانس لیں گے تو یہ خیالِ خام ہوگاپورے شہر کی فضا زہر آلود ہوچکی ہے‘آلودگی کی جو قسم ہے اس میں بڑی قسم فضائی آلودگی ہے جو ہمارے ہاں بہت بڑے پیمانے پر موجود ہے ‘صرف رنگ روڈ تو نہیں موٹر وے ہے پھر جی ٹی روڈ ہے یونیورسٹی روڈ ہے دلہ زاک روڈ ہے ورسک روڈ ہے اور نت نئی قسم کی سڑکیں ہیں اور ان گاڑیوں کے ہاتھوں پامال ہو رہی ہیںکوئی اصول ضابطہ ہونا چاہئے مگر یہاں کیا ہونا چاہئے اس کے بارے میںدانشور بھی خاموش ہیں ‘چپ اس لئے ہیں کہ وہ اگر کوئی تجویز بھی دیں تو ضائع جائے گی جس طرح اس سے پہلے حربے ناکام ہوئے ہیں جو جیسے تھا ویسے ہی موجود ہے ‘کسی کو کسی کل آرام نہیں ہے جو سڑک آپ دیکھیں اس کے کنارے یا درمیان میں گرین بیلٹ کا سبزہ گرد سے اٹا ہوا ہے خدا کرے کہ بارش کے چھینٹے پڑجائیں تاکہ سبزہ دھل کر نکھرے اور نکھر کر صاف ہو جائے‘ یہاں تو بارش ہی اہم کردار ادا کرسکتی ہے وگرنہ تو عملہ صفائی کے بس کا روگ بھی نہیں رہا کہ وہ شہر کو مکمل صفائی کی حالت میں رکھ سکیں۔اس کی وجہ یہ ہے جتنا دھوا ںگاڑیوں سے نکلتا ہے اس کو یہ سبزہ کھا لیتا ہے اور جتنا مٹی اڑتی ہے وہ اس سبزہ کی خوراک ہے مگر سبزہ صاف ستھرا نتھرا ہوا نہیں ‘پھر آوازکی آلودگی بھی توایک قسم ہے‘ جب ٹراتے ہوئے موٹر سائیکل جو ان دنوں بالکل تیار ہیں کہ راتوں کو لوگوں کو شب بیداری پر مجبور کریں گے‘ اپنی تیز آواز سے ان کی نیندیں حرام کریں ۔جن پر لڑکے بالے بیٹھے ہوئے خوش ہوتے ہیں‘ان کا نشہ ہے کہ وہ جوان ہیں او رون ویلنگ کر کے اپنے دلوں کو سکون اور اپنے ماں باپ کے جگر کو چھلنی کر رہے ہیں‘پانی بھی یہاں کا آلودہ ہے‘شہر کے گلی کوچوں میں سرکاری نلکے نالیوں میں سے ہوکر گزرتے ہیں ۔جن کی سوراخوں اور پائپ کے جوڑوں میں نالی کا پانی بھی شامل ہو جاتاہے ۔ جس کی وجہ سے پانی کی آلودگی نے بھی جنم لیا ہے‘ ہمارے قریب کے دریا بھی تو بڑے گٹر بن چکے ہیں۔جس کا بس چلے چارسدہ روڈ بڈھنی کے دریا میں کوڑا کرکٹ ڈال دیتے ہیں ۔