کیا نوجوان ہماری قومی ترجیح ہیں؟ نوجوانوں کے عالمی دن کے موقع پر ’روایتی بیانات‘ سے زیادہ کچھ بھی سننے میں نہیں آیا اور سب سے حیرت انگیز بات یہ رہی کہ اِس موقع پر ’نوجوانوں کی اکثریت‘ کو علم ہی نہیں ہوا کہ اُن کا عالمی کب آیا‘ اور کب گزر گیا! ایک ایسا دن جس کا مقصد عالمی سطح پر نوجوانوں سے متعلق مسائل کو اُجاگر کرنا ہے اور اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہ دن ’خاص اہمیت‘ کا حامل ہے کیونکہ پاکستان کی اکثریتی آبادی یعنی تقریبا چونسٹھ فیصد تیس سال یا اِس سے کم عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے تاہم آبادی کے اِس قدر بڑے حصے یعنی نوجوان نسل کیلئے ایسے اقدامات ضروری ہیں جن سے واضح ہو کہ نوجوان حقیقی معنوں میں قومی ترجیح ہیں۔ نوجوانوں کو سیاسی اور معاشی استحکام چاہئے‘ نوجوانوں کو فرسودہ اور کم وسائل والے تعلیمی نظام کے مقابلے ایک جدید تعلیمی نظام چاہئے۔ نوجوانوں کو اظہار رائے اور نقل و حرکت کی آزادی چاہئے اور سب سے بڑھ کراُنہیں
روزگار کے ایسے مواقع چاہیئں جو اِن کی صلاحیتوں اور تعلیم کے مطابق ہوں لیکن ایک ایسی صورتحال اور ثقافت کہ جس میں نوجوان خود کو معاشرے سے مایوس اور الگ تھلگ محسوس کر رہے ہیں اور انہیں کامیاب زندگی بسر کرنے کے لئے اندرون ملک بہت ہی کم مواقع دستیاب ہیں تو وقت ہے کہ حکومت نوجوانوں کی توقعات پر پوری اُترے اور اُن کی آنکھوں میں بسے ہوئے ایک کامیاب عملی زندگی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جائے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اُنتیس فیصد نوجوان نہ تو تعلیم و تربیت رکھتے ہیں اور نہ ہی برسرروزگار ہیں۔ یہ بات الگ سے
پریشان کن ہے کہ تعلیم و تربیت اور تجربہ رکھنے والے سات لاکھ نوجوان ایک سال میں ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ کسی ملک کے لئے اِس سے زیادہ خطرناک بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ جب اُس کے نوجوان بالخصوص اعلی تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوان اگر اپنا بہتر مستقبل اندرون ملک کی بجائے بیرون ملک دیکھنے لگیں۔پاکستان میں نوجوانوں کو قومی ترجیح کے طور پر دیکھے بغیر اِن کے مسائل حل نہیں ہوں گے جبکہ نوجوانوں کے مسائل کا حل اِس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ اِن کا تعلق ملک کے مستقبل سے ہے۔ کیا یہ بات المیہ نہیں کہ ہمارے نوجوا ن حالات سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں۔ نوجوان اپنی شناخت کا مربوط احساس کھو رہے ہیں اور زیادہ تر مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہیں؟۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے آج کے نوجوان کو بیرون دنیا میں تعلیم و تربیت اور ترقی و ملازمت
کے مواقعوں کے بارے میں خبریں ملتی ہیں تو وہ قانونی و غیرقانونی راستے اختیار کر کے حتیٰ کہ اپنی زندگی داو¿ پر لگا کر پاکستان چھوڑ جاتا ہے جبکہ پاکستان میں ترقی کے امکانات اور قدرت کے فراہم کردہ دنیا کے کسی بھی ملک سے کم نہیں۔ قومی فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کہ نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ ترقی کے مواقعوں کی فراہمی کے ساتھ اُنہیں شناخت کا احساس حاصل کرنے اور اپنے ملک کے بارے میں ایسا نقطہ نظر رکھنے میں مدد ملنی چاہئے جو موجودہ حال سے زیادہ پرکشش ہو۔ نوجوانوں کو درپیش مسائل سے نمٹنے کی کوشش کا ’نقطہ آغاز‘ اِس اقدام سے ہو سکتا ہے کہ قانون ساز ایوانوں میں خواتین کی طرح نوجوانوں کی نمائندگی کو لازم کر دیا جائے۔ جب ہمارے نوجوانوں کی رائے قومی قانون سازی میں شامل ہو گی تو اُمید ہے کہ اِس سے اُن کے مسائل بھی ترجیحی بنیادوں پر حل ہوتے چلے جائیں گے‘ جو وقت کی ضرورت ہے۔