نگرانوں پر نگرانی 

اسمبلیوں کی تحلیل کا کا م مکمل ہونے کے بعد اب نگران وزیراعظم کا انتخاب ہونے کے ساتھ کابینہ منتخب کرنے کا مرحلہ بھی عنقریب طے ہونے والا ہے یہ بات خوش آئند ہے کہ نگران کابینہ میں پڑھے لکھے‘تجربہ کار اور اچھی شہرت کے ریٹائرڈ آفیسر وں کے علا وہ صحا فی‘وکلا اور سول سو سائٹی کے نیک نا م لو گ آئینگے۔ آگے ایک خدشہ جنم لے رہا ہے خد شہ یہ ہے کہ اگر سابقہ حکومتوں کی دیکھا دیکھی نگران حکومتوں میں بھی 60وزراءاور 40معا ونین خصو صی بھر تی کئے گئے تو صاف ستھری انتظا میہ کا خواب چکنا چور ہو جا ئیگا‘ ویسے دیکھا جائے توووٹ کے ذریعے ہمارے ہاں سیا ست دانوں کی جو حکومت آتی ہے کہ اس میںاتحادیوں کو بھی راضی رکھنے کیلئے گنجائش رکھنا ہوتی ہے‘اس وجہ سے وسیع و عریض کا بینہ وجود میں آتی ہے‘ اسلئے منا سب اور معقول تجویز یہ ہے کہ وفاقی کا بینہ کا حجم 12 وزیروں سے زیا دہ نہ ہو، صو بائی کا بینہ میںو زیروں کی زیا دہ سے زیا دہ تعداد 15ہو۔ یہ گڈ گورننس اور اچھی نظم و نسق یا نقائص سے پا ک انتظا میہ کے لئے لا زم ہے یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ہاں غیر ضروری طور پر وزارتوں اور صو بائی سطح کے محکموں میں توڑ پھوڑ کر کے ایک وزارت یا محکمے کو تین یا چار وزارتوں یا محکموں میں تقسیم کر دیا ہے ۔دوسرے ملکوں کے لو گ خبروں میں ہمارے وزیروں کے محکمے دیکھ کر حیران ہوجاتے ہیں‘ جب وہ دیکھتے ہیں کہ قانون کا الگ وزیر ہے ،پارلیمانی امور کا الگ وزیر ہے، انسا نی حقوق کا الگ وزیر ہے‘ اسی طرح صو بائی سطح پر آکر ما حولیات کا الگ وزیر ہے جنگلات کا الگ وزیر ہے‘ جنگلی حیات کا وزیر کوئی اور ہے۔ مزید ستم ظریفی دیکھئے فشریز یعنی ما ہی پروری کا وزیر کوئی اور ہے اس حساب سے پھر معاونین خصو صی بھر تی کئے جاتے ہیں‘ اسلئے منا سب بات یہ ہے کہ نگرانوں پر بھی نگران بٹھا یا جا ئے اور نگران کابینہ کو مختصر کر کے وزا رتوں اور محکموں کو 1985ءسے پہلی والی سطح پر لایا جا ئے تا کہ آنے والے لو گ ان کی توڑ پھوڑ نہ کر سکیں اور آئندہ کے لئے کا بینہ کا حجم 12یا 15وزیر وں سے زیا دہ نہ ہو۔ ویسے بھی نگران حکومت کا کام تو منتخب حکومت کے آنے تک نظم ونسق چلانا ہے تاہم کیا ہی اچھا ہو کہ اس دوران ایسے اقدامات کئے جائیں جو آنےوالوں کیلئے مثال بنے۔ کم ترین اخراجات کےساتھ بہترین نظم و نسق کا مظاہرہ کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ تین مہینوں کے دوران لاکھو ں کروڑوں کی بچت نہ ہو‘بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ جس طرح کے حالات کا وطن عزیز کو سامنا ہے اس میں منتخب حکومت کے آنے کے بعد بھی اخراجات پر مکمل کنٹرول اور کفایت شعاری کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہوگا تاکہ جن معاشی مشکلات سے اس وقت ملک دوچار ہے اس سے ملک کامیابی کے ساتھ نکلے اور معاشی استحکام سے ہمکنار ہو۔