آٹھ ہزار میٹر بلند چوٹی سر کرنا کسی بھی صورت آسان نہیں ہوتا بالخصوص ایک ایسی صورتحال میں جبکہ موسم موافق نہ ہو اور یہی وجہ ہے کہ کوہ پیمائی کی اکثر مہمات حادثات کا باعث بنتی ہیں۔ کوہ پیمائی سے جڑے کھیل سے وابستہ خطرات کا شمار ممکن نہیں لیکن یہ خطرات بھی بعض اوقات اِس بات پر منحصر ہوتے ہیں کہ کوہ پیما کا تعلق کس ملک سے ہے اور وہ مالی طور پر کس قدر خوشحال ہے کیونکہ زیادہ مالی وسائل رکھنے والے کوہ پیما اپنے ساتھ زیادہ تعداد میں سامان اور پورٹرز لے کر جاتے ہیں اور اِس طرح اُنہیں محفوظ طریقے سے عالمی ریکارڈ بنانے کا موقع ملتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ترقی یافتہ مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والوں کو کسی حادثے کی صورت خصوصی توجہ (ریسکیو پروٹوکول) دیا جاتا ہے۔ ستائیس جولائی کو ’کے ٹو‘ نامی پہاڑی پر پیش آنے والا سانحہ بھی اِسی طرح کی ایک مثال ہے جس میں ایک مغربی کوہ پیما اور ان کی ٹیم نے ’کے ٹو‘ کی چڑھائی کی حالانکہ اُن کے ساتھ پاکستانی پورٹر (حسن) رسیوں کو سنبھالتے ہوئے گر گئے اور ان کا آکسیجن ماسک ٹوٹ گیا۔ کچھ کوہ پیماؤں کا کہنا ہے کہ چوٹی سر کرنے کے دوران انہیں پانچ برفانی تودے گرنے کا سامنا کرنا پڑا اور ان میں سے زیادہ تر بغیر کسی نقصان کے برف سے کھدائی کرنے میں کامیاب رہے۔ ان میں سے کچھ نے اتفاق کیا کہ حسن زندہ تھا جب وہ نیچے گرا اور مدد کے لئے پکار رہا تھا لیکن پچاس سے زائد کوہ پیماؤں نے بے حسی کا مظاہرہ کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے بعض مہم جو شہرت کی لالچ سے زیادہ کچھ نہیں رکھتے اور ان کے لئے ایک انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ناروے سے تعلق رکھنے والے ایک کوہ پیما نے ستائیس دن میں دنیا کے دو پہاڑوں کو سر کرنے کا نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ ان کی کامیابی کا جشن منانے والوں میں سے بہت سے لوگوں نے اس المناک حادثے کے بارے میں ایک لفظ بھی ذکر نہیں کیا لیکن کچھ غیر ملکی صحافیوں نے اس معاملے کو احتیاط کے ساتھ رپورٹ کیا اور یقینا اُن مددگاروں کی خدمات کا اعتراف ہونا چاہئے جو کوہ پیماؤں کو عالمی شہرت دلاتے ہیں۔ حسن کو صرف اِس لئے مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا کیونکہ کوہ پیماؤں کو اپنے ریکارڈ کی پڑی تھی یہ انتہائی افسوسناک ہی نہیں بلکہ ایک حیران کن بات بھی ہے۔ پہاڑی پورٹرز کو شاید ہی وہ پہچان اور کریڈٹ دیا جاتا ہے جس کے وہ مستحق ہیں اور صرف چند کوہ پیما ہی تسلیم کرتے ہیں کہ ان پورٹرز کی مدد کے بغیر اِن پہاڑوں کی چڑھائی ناممکن ہوتی ہے۔ یہ پورٹرز کوہ پیمائی کا سامان اُٹھا کر لے جاتے ہیں اور کوہ پیماؤں کو اپنے مقاصد تک پہنچنے میں مدد کرتے ہیں اور یوں اُن کا دنیا کی بلند ترین چوٹیوں تک پہنچنے کا خواب پورا ہوتا ہے۔ کچھ رپورٹوں سے پتہ چلا ہے ٹور آپریٹرز پہاڑوں کے سفر کے لئے دو سے سات ہزار ڈالر وصول کرتے ہیں لیکن اِن پورٹرز کو بمشکل ایک سو سے ڈیڑھ سو ڈالر معاوضہ ملتا ہے اور انہیں مہینوں بغیر کام ملے بھی رہنا پڑتا ہے جبکہ موسم انتہائی شدید ہوتا ہے اور کوہ پیمائی عملاً ممکن نہیں رہتی۔ حسن نامی پورٹر کی موت کے واقعے پر بہت سے لوگوں کا رد عمل بھی آیا جس میں اُنہوں نے کوہ پیمائی سے جڑے خطرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قسم کا حادثہ کسی بھی پیش آ سکتا تھا اور یہ کھیل کا حصہ ہے لیکن حسن جیسے پورٹروں کے لئے اِس کھیل میں کوئی لطف نہیں۔ پہاڑوں کو دنیا کا سب سے بلند قبرستان بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہاں لاوارث لاشیں دفن ملتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ حسن کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ گرنے کے بعد کئی گھنٹوں تک زندہ رہا اور اِس سے معاملہ اور بھی زیادہ افسوسناک ہو جاتا ہے۔ پہاڑوں میں رہنے والے پرجوش کوہ پیماؤں کو ریکارڈ بنانے اور شہرت حاصل کرنے میں مدد کرنے کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کر دیتے ہیں لیکن اُن کی خدمات کا خاطرخواہ اعتراف نہیں کیا جاتا۔ یہ دل دہلا دینے والی بات ہے کہ کوئی بھی کوہ پیما انہیں طبی امداد حاصل کرنے کے قابل یا کسی ایسے شخص کے طور پر نہیں دیکھتا جس کے لئے وہ اپنا عالمی ریکارڈ ضائع کرے۔ انسانی جان کی اہمیت بہرحال کسی بھی عالمی اعزاز سے زیادہ قیمتی ہے اور وقت ہے حکومت اِس سلسلے میں کوہ پیماؤں کے قواعد و ضوابط تخلیق کرے کہ وہ پورٹروں خدمات کا بہتر معاوضہ اور تحفظ فراہم کریں۔