ٹھیک آج سے سو سال پہلے جب علامہ اقبال زندہ تھے تو انھوں نے لاہور سے اپنے گاؤں سیالکوٹ میں والد گرامی کو خط لکھا تھا۔ جس میں انھوں نے گھریلو باتیں تولکھی تھیں مگر ایک پیراگراف گھریلو امور سے ہٹ کر بہت شاندار ہے۔ جس میں انھوں نے فرمایا کہ قوم قوم کی دشمن ہے۔مقصد یہ ہوا کہ اس وقت بھی سیاسی کشاکش جاری و ساری تھی۔اس وقت پہلی عالمگیر جنگ ہو چکی تھی اور اس خط کے بعد دوسری جنگِ عظیم نے ہونا تھا۔ مگر ان کی زیرک نگاہوں سے عالمی سطح کی سیاست چھپی ہوئی نہ تھی۔ حالانکہ وہ زمانہ آج کل کے نیٹ کا زمانہ نہ تھا۔آج روس اور یوکرین کا حال دیکھیں جس کی وجہ سے امریکا کو روس ایک آنکھ نہیں بھاتا۔امریکا نے ہر طرف اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں۔ اس کی لگائی ہوئی معاشی پابندیاں اس کی بات نہ ماننے پر سزاکے طور پرہوتی ہے۔ جس سے روس تک جیسا ملک متاثرہے۔انہوں نے خط میں لکھا کہ آج کل بیشتر انسان حیوانوں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں۔یعنی ایک دوسرے سے بے زار اپنے لئے ہی جی رہے ہیں۔کمال تو یہ ہے کہ دنیا میں اگر آئے ہیں تو اپنے علاوہ کسی اور کے لئے بھی زندہ رہا جائے۔ یونہی اپنے لئے زندہ رہنا تو انسان کے علاوہ جانوروں کی بھی خصوصیت ہے۔پھر لکھا ہے کہ مولانا روم ایک بار چراغ لے کر سرِ بازار دن کے وقت گھوم رہے تھے۔کسی نے پوچھا کہ دن کو تو اچھی خاصی روشنی ہے آپ اس روشنی میں کیا تلاش کر رہے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہامیں انسان کو ڈھونڈرہاہوں۔ یہ بھی انہوں نے بہت عجیب بات لکھی ہے۔آج اس زمانے سے زیادہ ترقی ہونا چاہئے تھی مگر معاملہ الٹ ہے۔آج بھی انسان اسی حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ معروف ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری نے اپنے ایک ڈرامہ ”خوبصورت بلا“ میں لکھا ہے کہ دنیا کی مٹی جس پانی میں گھولی گئی ہے اس کا نام خود غرضی ہے۔آج ہر آدمی اپنی غرض کا بندہ ہے۔اس کا کام نکل جائے تو اس کے لئے بس یہی کافی ہے۔دوسرے کے کیا مسائل ہیں اس کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔یہ بیشتر انسانوں کی بات ہورہی ہے۔ہاتھ کی پانچ انگلیاں برابر نہیں ہیں۔انھی انسانوں میں وہ آدمی بھی ہیں جو اپنی ذات سے بے نیاز دوسروں کیلئے جیتے ہیں۔وہ خیر خواہی کے ادارے چلانے والے لوگ ہیں جو پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنی اپنی خدمت میں مصروف ہیں۔رات دن ہمہ وقت ہمہ تن مصروفِ عمل ہیں۔ان کو کسی ستائش کی پروا نہیں اور نہ ہی کسی صلے کی تمنا ہے۔ وہ ازراہِ خدا کام کرتے ہیں اور بے پرواہی سے کرتے رہیں گے۔ان کو روکنے والا بھی کوئی نہیں کیونکہ وہ کسی کے بہکاوے میں آ کر ا س خاموش خدمت سے دست کش نہیں ہوتے۔یہی تو اصل خوشی ہے۔زندہ رہنے کا ہنر ہے جس سے ہر کوئی واقف بھی تو نہیں ہے۔کیونکہ وہی بات کہ بیشتر انسان حیوانوں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں۔وہ کیوں نہ اپنے لئے اور اپنے بال بچوں کے لئے دولت جمع کریں تاکہ ان کو اطمینانِ قلب حاصل ہو۔مگر اطمینان تو کہیں اور موجودہے جس سے ان کو واقفیت نہیں ہے۔اگر وہ اس سکون سے واقف ہو جائیں تو کبھی اپنے لئے جمع نہ کریں بلکہ انسان کی فلاح و بہبود کے لئے خر چ کریں۔ جمع کرنے سے ان کو کسی نے روکا نہیں ہے۔کیونکہ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ اپنے لئے جمع کرے گا۔مگر اس میں دوسروں کا الگ حصہ نکالنا چاہئے۔ جو مختلف صورتوں میں ہے۔احمد ندیم قاسمی کا شعر ہے کہ ”شانِ عطا کو تیری عطا کو خبرنہ ہو۔ یوں بھیک دے کہ دستِ گداکو خبر نہ ہو“۔مگر دوسروں کی مدد اس طرح ہو کہ ان کی عزت ِ نفس مجروح نہ ہو۔ان کو ان کی غریبی کا احساس نہ ہونے پائے۔کچھ دہائیوں تک تو آرام تھامگر کچھ عرصہ ہوا پھرسے قوم قوم کی دشمن ہوئی جاتی ہے۔لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ایک طاقت ایک کی پسِ پُشت ہے اور دوسری دوسرے کی پُشت پناہی کر رہی ہے۔بلکہ یہ توہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ عالمگیر جنگیں اسی طاقت کے احساس کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ایک فریق نے کہا ہم طاقتور ہیں اور دوسرے نے کہا نہیں ہم میں طاقت و توانائی زیادہ ہے۔اس دونوں نے کہا تو آؤ پھر میدان میں دیکھتے ہیں کہ کون زیادہ طاقت ور ہے۔ لاکھوں لوگ مر گئے ایٹم بم گرائے گئے۔اس ایٹم بم کی اتنی توانائی تھی کہ شہر کا شہر مٹ گیا۔اب تو اس سے زیادہ طاقت ور ایٹمی توانائیاں مختلف ملکوں کو حاصل ہیں۔مگر وہ یہ بم ایک دوسرے پراچھالتے نہیں ہیں۔کیونکہ ان کو معلوم ہے اب کے اس کاانجام دنیا کے خاتمے پر بھی اختتام پذیر ہو سکتا ہے۔ عالمی سطح پر امن کی ضرورت ہے۔طاقت کو متوازن ہونا چاہئے۔ ان ممالک کو معلوم ہے کہ اگر ہماری کشاکش ان سے یا دوسرے ملک سے ہوئی تو عجب نہیں کہ لڑائی دوسرے ملکوں تک پھیل جائے اور ان کا ساتھ دینے کے لئے ایٹمی طاقتیں بھی میدان میں آن موجود ہوں جیسا کہ روس اور امریکا کی آپس میں ٹھنی ہوئی ہے۔عالمی طاقتیں ایک کو اسلحہ بیچتی ہیں اور اس کے دوسرے حریف کو ان میزائل سے بچنے کے لئے راڈار دیتی ہیں۔ دونوں اطراف سے دولت کماتے ہیں۔