پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات میں ترسیلات زر کا کم ہونا بھی شامل ہے۔ سٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ ماہ (جولائی دوہزارتئیس) کے دوران مجموعی طور پر 2.03 ارب ڈالر کے ترسیلات زر ہوئے جو اِس سے قبل ماہ جون کے مقابلے 7.3 فیصد کم ہیں اور پانچ ماہ کے تناسب سے بھی کم ہیں۔ تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں مسلسل اضافہ بھی پاکستان کے خزانے پر بوجھ اور عوام کے لئے کسی ڈراﺅنے خواب جیسا ہے۔ حکومت کو پیٹرولیم مصنوعات کی خریداری کے لئے ادائیگیاں کرنا پڑتی ہیں جن کی وجہ سے ڈالر کی مانگ زیادہ ہوئی ہے تاہم اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر تین سو روپے سے تجاوز کرنے کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ مسئلہ ابھی رہتا ہے۔ یہ خبر اپنی جگہ پریشان کن ہے کہ کرنسی مارکیٹ سے ڈالر غائب ہو گئے ہیں کیونکہ سٹہ باز ڈالر کی قیمت مزید بڑھنے کی توقعات میں سرمایہ کاری کئے بیٹھے ہیں! اگر بین الاقوامی تجارت کی بات کی جائے تو پاکستان کی کرنسی مارکیٹ سے ڈالر سرمایہ کار خریدار رہے ہیں تاکہ روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر میں مزید اضافہ کیا جائے۔ اِس منفی رویئے کو روکنے کے لئے قانون نافذ کرے والے اداروں کو حرکت میں آنا چاہئے کیونکہ اگر افغانستان ڈالروں کی ترسیل میں کمی آئی ہے تو دوسری طرف سٹہ بازوں نے ڈالروں کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی ہے!بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) چاہتا ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کی جائے اور ڈالر کی قدر کا فیصلہ حکومت نہ کرے بلکہ اِس کا اختیار مارکیٹ کو سونپ دیا جائے۔ حال ہی میں پاکستان نے ’آئی ایم ایف‘ سے قرض لے کر زرمبادلہ کے ذخائر کو کسی حد تک مستحکم کیا‘لیکن صرف ڈالروں کا قومی خزانے میں آنا ہی کافی نہیں بلکہ اصل اور بنیادی مسئلہ ’قرض کی ادائیگی‘ ہے۔ جس کیلئے ٹھوس بنیادوں پر اٹھائے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کو اس قدر مستحکم بنایا جائے کہ بیرون قرضوں کی ضرورت ہی نہ پڑے۔دوسری طرف روپے کے دفاع کے لئے مارکیٹ کو قیمت کا ازخود تعین کرنا ایک ایسا قدم ہے جس کے اٹھانے میں احتیاط کی ضرورت ہے ۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مزید کم کرنے کے لئے ’آئی ایم ایف‘ تیار بیٹھا ہے جو اِس طرح کی گراوٹ کے افراط زر (مہنگائی) پر اثرات کو دانستہ طور پر نظر انداز کر رہا ہے۔ ایک عام آدمی کے نکتہ¿ نظر سے معیشت اور معاشی فیصلے درست سمت میں سفر کیلئے ضروری ہے کہ ملکی معیشت کو قرضوں سے نجات دلائی جائے۔ پاکستان جس گلوبلائزڈ دنیا کا حصہ ہے اور جو پہلے ہی گزشتہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے مختلف معاشی اصلاحات کے دور سے گزر رہا ہے اُس کے لئے قومی آمدنی میں اضافے کے بغیر معاشی بہتری کی کوئی دوسری صورت نہیں‘ لیکن سٹیٹ بینک آف پاکستان اور یہاں تک کہ وزارت ِخزانہ کے پاس بھی مارکیٹ میں مداخلت کا کوئی نہ کوئی ذریعہ موجود ہونا چاہئے تاکہ روپے کی قدر کا دفاع کرنے کے لئے مارکیٹ میں کسی بھی وقت مداخلت کی جا سکے۔ اس طرح کے میکانزم کا ہونا اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ کیونکہ روپے کی قدر قیاس آرائیوں کی وجہ سے کم ہو رہی ہے۔