پاکستان کی معدنی دولت اور بلوچستان 

سیکورٹی اداروں نے اگلے روز گوادر میں چینی انجینئروں پر حملہ ناکام بنا کر بلا شبہ ایک بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے ۔پر اس ممکنہ حملے نے ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کو اُجاگر کر دیا ہے کہ وطن عزیز کے دشمن پاکستان اور چین کے تعلقات خراب کرنے اور سی پیک کو ناکام بنانے کی کوشش میں کس قدر متحرک ہیں ۔افغان وزیر خارجہ کا یہ بیان سر آنکھوں پر کہ پاکستان سمیت تمام پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں ، پر کیا ہی اچھا ہو کہ افغانستان اس پر صدق دل سے عمل بھی کرے۔ہم یہ لکھ لکھ کر تھک چکے ہیں کہ خدا را ملک کے روڈ ٹریفک کے نظام کو درست کیا جائے کہ روزانہ روڈ پر حادثات کی وجہ سے سینکڑوں مسافر لقمہ اجل ہو رہے ہیں ۔ اگلے روز ہزارہ موٹر وے پر ایک موٹر کے ٹائر پھٹنے سے بنوں سے تعلق رکھنے والے پانچ جواں سال افراد ایک حادثے کا شکار ہوکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابھی تک ہم نے ایسا کوئی میکینیزم وضع نہیں کیا کہ جس کے تحت سڑکوں پر صرف انہی گاڑیوں کو چلانے کی اجازت ہو کہ جو ہر لحاظ سے مکینکلی فٹ ہوں جن کے ٹائر بوسیدہ نہ ہوں ۔ اب تک تیز رفتاری سے گاڑیاں چلانے والوں کو قرار واقع سزا دے کر ان پر نکیل نہیں ڈالی جا سکی ہے۔ کراچی سے پشاور تک ملک کو بلٹ ٹرین سے لنک کرنے کا منصوبہ بجا ہے پر اس سے بھی زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ جوریلوے ٹریک اور ان پر تعمیر کردہ پل اور ریلوے سٹیشن فرنگی ہمارے لئے ورثے میں چھوڑ گئے تھے اورجو آج خستہ حال ہیں ان کی تعمیر نو کر کے ان کو مکمل تباہی سے بچایا جائے کہ وہ اربوں روپوں کا قومی اثاثہ ہیں نیز ملک بھر میں وہ اراضیات جو ریلوے کی ملکیت ہیں ان سے بھی خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ریلو ے کو خسارے سے نکال کر اسے منافع بخش ادارہ بنا یا جاسکے۔اب ذرا کچھ تذکرہ ہو جائے زیر زمین موجود معدنیات کا دنیا میں اس وقت دس ایسے ممالک ہیں بشمول پاکستان کہ جو معدنی دولت سے مالامال ہیں ۔پاکستان کو خدا نے 50کھرب ڈالر کے معدنی ذخائر عطا کئے ہیں جن میں تھر میں دنیا کے کوئلے کے دوسرے بڑے 185 ارب ٹن کے ذخائر ،ریکو ڈیک میں تانبے کے پانچویں بڑے 22ارب پانڈ کے ذخائر اور سونے کے چھٹے بڑے 13 ملین پانڈ کے ذخائر شامل ہیں۔ صرف ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی مالیت500 ارب ڈالرہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ تھر میں کوئلے کے ذخائر سعودی عرب اور ایران کے مجموعی 400ارب بیرل تیل کے مساوی ہیںجن سے دو سو سال تک سالانہ ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔اس وقت چین دنیا میں ترقی اورخوشحالی کی ایک مثال کے طور پرجانا جاتا ہے ۔اگر قدرتی وسائل سے بھرپور استفادہ کیا جائے توپاکستان دوسرا چین بن سکتا ہے ۔ چین کی قیادت نے 1949 کے انقلاب کے بعد سے لے کر اب تک اپنی عوام دوست معاشی پالیسیوں کی وجہ سے چین میں 800 ملین لوگوں کو جو غربت کی لکیر سے نیچے رہتے تھے اس لکیر سے اوپر اُٹھا لیا ہے ۔چین کے صدر شی جن پنگ کی خود نوشت دی گورننس آف چاھنا The governance of China کا بغور مطالعہ پولیٹکل سائنس کے ہر طالب علم کے لئے ضروری ہے ۔ اگر ترقی اور خوشحالی کے چینی کے سفر کو دیکھا جائے تو اس سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے ۔