جوانی بھی کیا عجیب شئے ہے‘مگر اس کے عجیب ہونے کا احساس عین جوانی کے دنوں میں نہیں ہوتا‘کیونکہ اس وقت بندہ چونکہ خود جوان ہوتا ہے‘اسلئے اپنے ہونے کا احساس تک نہیں ہو پاتا۔جب نشہ ٹوٹنے لگتا ہے تو وہی کیفیت یاد آتی ہے اور آدمی پھر سے اسی حالت میں واپس جانا چاہتا ہے۔مگر جوانی کے بارے میں یہ احساس ہونا کہ یہ ایک نشہ ہے بڑھاپے کیساتھ منسلک ہے‘ جب آدمی کے ہاتھ پاؤں کام نہیں کرتے اور ان میں وہ جوانوں کی طاقت و رعنائی اور بچوں کا سا دوڑ بھاگ کرنا نہیں رہتا تو یاد آتا ہے کہ او ہو ہم نے بہت کچھ گنوادیا ہے۔بندہ جھک جاتا ہے مگر ”میں جھک کے ڈھونڈتا ہوں جوانی کدھر گئی۔یہ خم پیری کی وجہ سے نہیں ہوتا بندہ دراصل اپنی جوانی تلاش کر رہا ہو تا ہے۔دنیا جوانوں کی ہے اور ان کی جو اپنی طاقت کے بل بُوتے پر خواہ بچے ہوں اُچھلتے کودتے ہیں‘ہاں تب احساس ہو تا ہے کہ جب کسی بڑی نالی کے اوپر سے چھلانگ لگا کر اس پار قدم رکھنا ہو تو محسوس ہو تا ہے ہمارا تو وزن زیادہ ہو گیاہے۔ مگر اس موقع پر اپنے آپ کو دیکھیں تو پتلا سوکھاہونے کے باوجود ہرن کی طرح زقند نہ بھر سکنے کا مطلب یہ ہوگا کہ بس بھئی آپ بوڑھے ہوگئے۔ایک ہم ہی بوڑھے نہیں ہوئے کہ ساٹھ سے پہلے ہی سٹھیا گئے بلکہ ساٹھ کی باؤنڈری لائن کو کراس کرکے بھی بعض لوگ سترے بہترے ہو کر ساٹھ کے بھی نہیں لگتے‘انھوں نے کسی گاڑی کی طرح اپنے آپ کو اچھی کنڈیشن میں یوں رکھا ہو تا ہے جیسے یہ ریٹائرڈ زندگی نہیں بسر کر رہے‘ باقاعدہ بالوں پر سیاہ برش پھیریں گے اور مونچھوں کو تاؤ دیں گے۔اپنے آپ کو سیٹ رکھیں گے‘ہمارے انکل کی طرح کہ ہاتھ میں چھڑی بھی ہوگی گلے میں رنگین کالر بھی لگا رکھا ہوگا وضع قطح جوانوں کی سی بنا کر گھومیں گے‘اس گرمی میں سر پر قراقل کی ٹوپی بھی پہنیں گے‘پھر قدرت نے چہرہ مہرہ بھی خوبصورت دیا ہو تواس پر وہ زیادہ حسین نظر آئیں گے‘یوں لگے گا کہ ابھی ابھی ان کی منگنی ہوئی ہے مگر غور کرو اور معلوم کرواؤ تو معلوم ہو کہ ان کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بہ فضلِ خدا موجود ہیں‘اسی طرح کی شخصیت ہمارے چوک ناصر خان میں بھی موجود ہے‘عالمگیر جوانی رکھنے والے یوں کہ جوانوں کو دیکھ کر ان پر رشک آئے اور وہ ان کی طرح ہونا چاہیں۔آج کل کے نوجوانوں میں بعض تو عین جوانی کے عالم میں بھی بڑھاپے کے تھپیڑے سہہ رہے ہیں‘ ویسے جوانی کا تعلق اعصاب کے ساتھ ہوتا ہے‘ اگر اعصاب جوان ہوں تو بندہ نہ تو بڑھاپے کا کلیم کرتا ہے اور نہ ہی خود کو بوڑھا کہلوانا چاہتا ہے‘ جوانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جوانی پھر نہیں آنی ”بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی“۔بعض بوڑھے تو دوڑتے بھاگتے ہیں بالکل لاٹو کی طرح گول چکر ہی لگا تے رہتے ہیں اور یہاں ہم ہیں کہ عین جوان ہو کر بھی سیدھے جاتے ہوئے سانس پھول جانے پر کسی دکان کے تھڑے پر سانس لینے کو بیٹھ جائیں گے‘بعض بچے بھی ہیں کہ عین بچپن سے سیدھا بڑھاپے میں قدم رکھیں گے‘ وہ تو غربت کے مارے ہوئے لوگ ہوں گے جنھوں نے اگر جوانی دیکھی بھی تو سنا ہوگا کہ وہ جوان ہیں وہ رعنائی جو جوانی میں ہوتی ہے وہ ان میں ناپید ہوگی۔”وہ شب و روز ماہ و سال کہاں‘ وہ فراق اور وہ وصال کہاں“۔ تھی جو اک شخص کے تصور سے‘ اب وہ رعنائی خیال کہاں“۔ جب دو چار قدم لینے سے سانس پھولنے لگے تو جوانی کا یاد آنا فطری ہے‘جب سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وقفہ وقفہ سے اوپر جایا جائے تو جوانی تو کیا بچپن بھی یاد آئے گا‘جب ہم سیڑھیا ں پھلانگ کر آن فان میں اوپر والی منزل تک پہنچ جایا کرتے تھے‘ کراچی میں بلند وبالا عمارتیں ہیں‘بعض میں تولفٹ ہے او راکثر میں نہیں ہیں‘وہاں ہمارا سسرال ہماری جوانی کے زمانے میں پانچویں منزل پر تھا‘اوپر سے دیکھتے تو گھر کی بوڑھی خواتین عمارت میں داخل ہوتے ہوئے نظر تو آتیں اوپر ایک سو دو سیڑھیاں چڑھ کر آتے ہوئے ان کو دیرلگ جاتی۔ کوئی پوچھتا تو اگلا کہہ دیتا ہو کہ وہ تو بلڈنگ میں داخل ہوکر اوپرروانہ ہو چکی ہیں وہاں ہمارے شباب کا عالم ملاحظہ ہو کہ ہم دو دو سیڑھیاں پھلانگ کر آدھ منٹ میں نیچے سے اوپر پہنچ جاتے‘مجال ہے کہ سانس پھولتی ہو۔ مگر پھولے بھی تو جلد ہی نارمل ہو جاتے‘اب عمر کے اس حصے میں وہ سیڑھیاں یاد آتی ہیں تو ایک ناممکن او رنامکمل ٹاسک نظر آتا ہے۔جیسے پانچویں منزل کا فلیٹ نہ ہو چاند پرجا کر چہل قدمی کرنا ہو۔