کیمبرج انٹرنیشنل ایگزامنیشنز (سی آئی ای) اے ایس اور اے کے نتائج حاصل کرنے والے سینکڑوں پاکستانی سکولوں کو اِس مرتبہ امتحانات کے حسب توقع نتائج نہیں ملے۔ طالب علموں کی جانب سے کی جانے والی شکایات کے پیمانے کو مدنظر رکھتے ہوئے‘ کیمبرج اسسمنٹ انٹرنیشنل ایجوکیشن نے پاکستان سے طلبہ کی شکایات کو مدنظر رکھتے ہوئے جاری کردہ خصوصی بیان جاری میں کہا ہے کہ اِس سال امتحانی نتائج میں تبدیلیاں ٹیسٹنگ ادارے کے وبائی امراض سے پہلے یعنی دوہزاراُنیس کے گریڈنگ سٹینڈرڈ پر واپس جانے کی وجہ سے ہیں۔ ’جی سی ایس ای‘ ایک مسابقتی امتحان ہے اور اِس میں اعلی گریڈ حاصل کرنا مشکل کام ہے لیکن گزشتہ تین برس میں چونکہ کورونا وبا کی وجہ سے درس و تدریس کے وسائل تک رسائی محدود تھی اور درس و تدریس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بہت سے سکولوں طویل عرصے تک بند رہے اور طلبہ کو ’آن لائن ایجوکیشن‘ کے وسائل سے استفادہ کرنا پڑا۔ تعلیمی اداروں کی بندش اور جلد بازی میں دور دراز کے تعلیمی ماڈل کو اپنایا گیا جسے مدنظر رکھتے ہوئے ’کیمبرج امتحانات کی درجہ بندی میں نرمی‘ کا فیصلہ کیا گیا جبکہ طلبہ اور اساتذہ
سمجھے کہ شاید یہ رعایت ہمیشہ کیلئے ہے‘ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ سال دوہزاربیس اور دوہزاراکیس میں اساتذہ کی طرف سے تشخیص کردہ امتحانی نتائج کو قابل قبول متبادل کے طور پر قبول کر لیا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں زیادہ تر طلبہ کو اعلی گریڈ حاصل ہوئے لیکن وقت کے ساتھ یہ عارضی اقدامات اور رعایت ختم کر دی گئی اور امتحان کی گریڈنگ کے پرانے طریقوں کو بحال کر دیا گیا۔ یہی وجہ رہی ہے کہ اِس سال کیمبرج امتحانات کے اچھے نتائج کی توقع کرنے والوں کو اُس وقت حیرت اور مایوسی ہوئی جب اُنہیں نتائج یعنی اپنی ’گریڈ سلپ‘ موصول ہوئی‘ پاکستان سے کیمبرج طلبہ کیلئے اچھے گریڈ حاصل کرنا ہمیشہ ہی سے مشکل ہوتا ہے اور اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے امتحانی طریقہ کار تھوڑا مختلف ہے‘ اِس سال زیادہ تر طلبہ نے شکایت کی ہے کہ گریڈ میں کمی امتحان کی منسوخی کی وجہ سے ہوئی‘ دس سے بارہ مئی کے روز ہونے والے کیمبرج امتحانات منسوخ کر دیئے گئے تھے۔ زیادہ تر طالب علموں نے کیمبرج کو اپنی کارکردگی کا جائزہ لینے اور اُس کارکردگی کی بنیاد پر نتیجہ مرتب کرنے کی اجازت دی لیکن جب نتیجہ سامنے آیا تو اب کم گریڈز کی شکایت کر رہے ہیں اور طلبہ کی ایک تعداد کو لگتا ہے کہ اُن کے تشخیص شدہ نمبر ’غیر منصفانہ‘ ہیں اور ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے‘ تین سال میں یہ پہلا موقع ہے کہ کیمبرج انٹرنیشنل امتحانات سال دوہزار اُنیس کے گریڈنگ سٹینڈرڈ پر واپس چلا گیا ہے اور زیادہ تر لوگ جنہوں نے پہلے تشخیص شدہ نمبروں کے آپشن کا انتخاب کیا تھا شاید یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے گریڈ میں اس قدر کمی آئے گا‘ کیمبرج امتحانی نظام کے منتظم ادارے کا اِس سلسلے میں وضاحتی بیان حتمی معلوم ہوتا ہے جس میں امتحان کے نمبروں پر نظرثانی کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا البتہ طلبہ کو زیادہ محنت اور کیمبرج امتحان کے معیار کو سمجھنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ صرف پاکستانیوں ہی کے نہیں بلکہ دنیا کے کئی دیگر ممالک کے طلبہ کو بھی
اِس سال گریڈز میں کمی کے حوالے سے خدشات و تحفظات ہیں‘ یونیورسٹیوں کو داخلوں کے بارے میں مشورہ دینے والی کنسلٹنسی کمپنی ’ڈیٹا ایچ ای‘ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ’اے لیول‘ کے نتائج کا انتظار کرنیوالے تقریبا ساٹھ ہزار طلبہ کو ان کے مطلوبہ گریڈ نہیں ملے جس کی وجہ سے وہ بڑی جامعات میں داخلہ حاصل نہیں کر پائیں گے‘ یونیورسٹیز کی مشروط پیشکشیں جاری کی جاتی ہیں اور اگر امتحانی گریڈز کم ہوں تو معروف یونیورسٹیوں کی جانب سے زیادہ تر طلبہ داخلہ حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ کورونا وبا کا دباؤ کم ہو چکا ہے اور تعلیمی منصوبہ سازوں کو اِس حقیقت کا ادراک کرنا چاہئے تھا جو نہ کرنے کی وجہ سے طلبہ کو پریشانی اُٹھانا پڑی ہے۔ ایسے طلبہ جو اپنے ’او لیول‘ کے دوران ’جی سی ایس ای‘ امتحانات دینے سے محروم ہوگئے ہیں اور گریڈمیں غیر متوقع کمی کو ختم نہیں کرسکتے اُنہیں شدید نقصان ہوا ہے۔ کسی بھی غیرملکی امتحانی نظام پر مکمل انحصار کرنے کی بجائے اگر پاکستان کا اپنا امتحانی نظام بہتر بنایا جائے تو ذہانت اور اُمیدوں کا اِس طرح نقصان نہ ہو جس کے لئے فیصلہ سازوں کو بہتر معیار تعلیم اور دنیا کے لئے قابل بھروسہ امتحانی نظام تشکیل دینا ہوگا۔