ریلوے کا اُلٹا سفر

جب بھی پا کستان میں ریلوے کا کوئی بڑا حا دثہ ہوتا ہے اس کی انکوائری کا حکم دیا جا تا ہے ہزارہ ایکسپریس کے حا لیہ حا دثے کے بعد بھی ایسا ہی ہوا تحقیقات کا حکم دیا گیا تحقیقات کے نیتجے میں رپورٹ آئی کہ پٹڑی میں سول انجینئرنگ کے ناقص کا م کی وجہ سے لو ہے کی جگہ لکڑی لگائی گئی تھی۔ ریل کے انجن میں میکنیکل نقص تھا چنا نچہ 6افسروں کو معطل کیا گیا ۔ریلوے کا الٹا سفر 1948 ءمیں شروع ہوا تھا اب تک الٹا سفر جاری ہے خیبر پختونخوا کے لو گوں کو پتہ ہے کہ 1948 ءمیں در گئی ، بنوں اور طور خم کے ریلوے سٹیشن آباد تھے ، چارسدہ ، مردان ، تخت بھائی کے سٹیشن بھی آباد تھے ، پشاور صدر کے علا وہ شہر کے سٹیشن پر بھی پوری آب و تاب کے ساتھ رونق ہوتی تھی نو شہرہ سٹیشن کا شمار مصروف ترین سٹیشنوں میں ہوتاتھا چارسدہ کا نوا حی گاﺅں سٹیشن کو رونہ اُس پر رونق دور سے آباد ہے اب سٹیشن نہ رہا‘ صرف ”کورونہ “ رہ گیا ہے اگر ریلوے کا سفر 1948کی طرح جا ری رہتا تو اب تک طور خم سے جلال آباد اور جلا ل آباد سے کا بل تک پٹڑی بچھائی جا چکی ہو تی بنوں سے وزیر ستان اور کرم تک پٹڑی نظر آتی ، ڈیرہ اسمٰعیل خا ن ریلوے کا سفر بیحد پُر لطف ہو تا ، درگئی تک جا نے والی پٹڑی کو کا لام ، کمراٹ اور چترال تک توسیع دی گئی ہوتی لو گ سیا حتی مقا مات تک جا نے کےلئے ریلوے کے سفر کا لطف اٹھا رہے ہوتے ہم کسی عوامی فورم یا سما جی مجلس میں 1948کے ریلوے سٹیشنوں کا ذکر چھیڑ تے ہیں تو کچھ یار دوست ہمیں دور ِغلا می کا طعنہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں نو آبادیا تی دور کی با قیات کو جس نے اکھاڑا اس نے اچھا کیا اب ہم آزاد ہیں نو آبادیا تی دور غلا می کا دور تھا انگریزوں نے ہما رے لئے ریلوے کی پٹڑیاں نہیں بچھا ئی بلکہ اپنی تو پوں اور ہتھیار وں کی نقل و حمل کے لئے ، اپنی فو ج کو راشن پہنچانے کے لئے دور دور تک ریلوے کی پٹڑیاں بچھا کر ہمیں غلا م بنا یا تھا اچھا ہوا کہ اُس دور کی یادگاروں میں سے بعض یاد گاریں مٹ گئیں ۔جذباتی لو گ اس قسم کے دلا ئل سے فو راًزیر ہو جاتے ہیں اور پا کستان ریلوے کی بر بادی کو آزادی کا نتیجہ اور جمہوریت کا پھل قرار دیتے ہیں مگر یہ کتابی باتیں ہیں عملی زندگی سے ان باتوں کا کوئی تعلق نہیں عملی زند گی میں آزاد قوموں نے نو آبادیا تی دور کے ریلوے کو مزید تر قی دی ریل کی پٹڑی میں ہزاروں کلو میٹر کا اضا فہ کیا سینکڑوں نئے سٹیشن بنا ئے اور سفری سہو لیات میں اضا فہ کیا ہمارے ہاں پہیے کو اُلٹا گھما یا گیا۔ واپڈا ‘پی آئی اے اور پا کستان سٹیل ملز کی طرح پاکستان ریلوے بھی سا لا نہ 10ارب سے 20 ارب تک کا خسا رہ دکھا تا ہے اگر آج پاکستان ریلوے کو نجی شعبے کے ہاتھ فروخت کیا گیا تو اگلے سال 10ارب کا منا فع دے گا کیونکہ نجی انتظامیہ اسے صاف ستھرے نظم و نسق کے ذریعے منافع بخش ادارہ بنائے گی پھر درگئی سے بنوں اور چارسدہ سے طور خم تک سارے سٹیشن دوبارہ آباد ہونگے۔ اگر ریلوے انگریزوں کی ضروریات پوری کرتا تھا تو ہماری فوج اور سول انتظا میہ کی ضروریات بھی اُسی طرح پوری کرے گا ضرورت اس امر کی ہے کہ ریلوے کونجی شعبے کے حوالے کیا جائے اوراس طرح اس کی کار کر دگی بہتر ہو گی اور ریلوے ایک منا فع بحش ادارہ بنے گا ۔