افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے دو سال مکمل ہونے پر ایک ایسا ملک دنیا کے سامنے ہے جو پہلے سے زیادہ معاشی مشکلات کا شکار ہے ۔ خستہ حال معیشت اور بنا کسی سفارتی حیثیت کے افغانستان کا مستقبل پہلے سے زیادہ غیر واضح (مبہم) دکھائی دے رہا ہے۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ سقوط ِکابل کی دوسری برسی کے موقع پر اُن ممالک کو بھی اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے جنہوں نے افغانستان کی تعمیرنو اور ترقی کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ ایک جنگ زدہ ملک کو اِس حال میں چھوڑ گئے ہیں کہ افغان عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ افغان عوام کو چند برس نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے جانی و مالی نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ مہاجرت کی زندگی بسر کر رہا ہے! روس (سوویت یونین) کے حملے سے لے کر اِس کے خلاف عسکری جدوجہد اور پھر نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد امریکہ کے افغانستان پر حملے سے لے کر مغربی افواج کے اچانک انخلا¿ تک اور اب ایک ایسے حکمرانوں کے اقتدار تک کہ جنہیں عوام کے مسائل و مشکلات کی پرواہ نہیں ہے اور جن کے لئے معاشی و حفاظتی محاذوں پر مشکلات میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے جبکہ افغانستان کو امن اور استحکام چاہئے۔ افغانستان کی جنگ کا شکار ہونے والوں اور پناہ گزینوں کی حیثیت سے افغان عوام نے ایسا بہت کچھ کھو دیا ہے جس کا شمار تک ممکن نہیں۔ ایسے لوگ بھی تھے جو سوویت حملے کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑ کر پناہ گزینوں کی حیثیت سے پاکستان آئے اور پھر کبھی واپس نہ جا سکے۔ یکے بعد دیگرے افغانستان کی سرزمین پر ایسے بدقسمت واقعات رونما ہو رہے ہیں کہ جن کی وجہ سے ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق موجودہ افغان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد 2 سال کے عرصے میں تقریبا ًگیارہ لاکھ افراد نے افغان چھوڑا ہے یعنی ہر سال ساڑھے پانچ لاکھ افغانوں نے مہاجرت کی زندگی اختیار کی ہے۔ صورتحال کا تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ افغانستان کے بحران کا کوئی مستقل و پائیدار حل دکھائی نہیں دے رہا۔ دنیا نے ابھی تک موجودہ افغان حکومت کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ اس نے خواتین‘ اقلیتوں اور دیگر پسماندہ طبقات (برادریوں) کے بارے میں اپنی پالیسیوں کو تبدیل نہیں کیا۔ اُمید تھی کہ دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد موجودہ حکمران اُن غلطیوں کو نہیں دُہرائیں گے جن کی وجہ سے ماضی میں اُن کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا ۔ سرحد پار دہشت گردی کے مسئلے کی وجہ سے پاکستان کے اپنے ہمسائیوں بالخصوص پاکستان کے ساتھ تعلقات بھی مثالی نہیں رہے۔ یادش بخیر پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل تھا جنہوں نے ’اُنیس سو نوے‘ کی دہائی میں افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا لیکن اِس مرتبہ پاکستان نے تنہا پرواز نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے لئے بین الاقوامی اتفاق رائے کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی کا اہم فیصلہ کیا جس کے باعث پاکستان کے افغان حکومت کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں پاکستان کی جانب سے بار بار کے انتباہ کے باوجود افغان حکومت پاکستان مخالف دہشت گردوں کو پناہ دیئے ہوئے ہے اور اِس قسم کی روش سے افغان حکومت اور افغان عوام کے مسائل و مصائب کا خاتمہ نہیں ہوگا۔