ایبٹ آباد کی خوشبو میں بسی نرم ہوائیں

ایبٹ آباد جانا ہمیشہ ایک خوشگوار احساس ہوتا ہے‘ اس دفعہ تو خیر ایبٹ آباد جانا اسلئے بھی ضروری ہوگیا کہ بیمار ہو جانے کے باعث میری بہن مجھے اکیلے چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی تھی نہ چاہنے کے باوجود مجھے یہ خوبصورت سفر اختیار کرنا پڑا‘ موٹر وے تک پہنچتے پہنچتے ایک گھنٹہ آرام سے لگ جاتا ہے چونکہ میرا گھر بنی گالہ میں ہے اب اسلام آباد میں آبادی کی کثرت اور گاڑیوں کا اژدھام ٹریفک کو بہت آہستہ رکھتا ہے‘ پٹرول مہنگا ہونے کے باعث موٹر سائیکل سواروں کا بھی بڑا قافلہ ہر سڑک پر نظر آیا بعض شہر ایسے ہوتے ہیں جہاں آپ اپنی ذاتی سواری کے بغیر زندگی مشکل سے گزارتے ہیں اسلام آباد بھی اک ایسا ہی شہر ہے پشاور کی کیا بات ہے گلی محلوں میں گاڑی رکھنے کا کوئی رواج نہیں تھا تو ہم اپنی منزلوں پر پیدل اپنے فاصلوں کو طے کرتے تھے ۔زیادہ سے زیادہ سائیکل اور پھر ہمارے رکشے زندہ باد‘ ہر جگہ پہنچا دینے کا سستا اور سہل ذریعہ رکشہ ہوتا تھا ویسے ہی ایک یاد آگئی کہ جب میرے بچے بہت چھوٹے تھے تو وہ اسلام آباد سے صرف رکشہ سواری کے شوق میں پشاور آتے تھے اور کبھی میں اپنے بیٹے سے پوچھتی کہ بڑا ہو کر کیا بنے گا تو بڑے فخر اور خود اعتمادی سے بولتا میں رکشہ چلاﺅنگا‘ یہ سب ہمارے لئے بڑا پرلطف ہوا کرتا تھا‘ بات ایبٹ آباد کی ہو رہی تھی اور پشاور کا ذکر تو آنا ہی تھا اسلئے کہ دونوں شہروں کا آپس میں ایک زبان کا رشتہ جو ہے موٹر وے کا سفر خوبصورت ہوتا ہے ایبٹ آباد موٹر وے کی طرف مڑتے ہی خوبصورت ترین سرسبز وشاداب راستوں نے استقبال کیا کچھ موڑ اتنے گہرے تھے کہ وقاص(میرا بھانجا) بتا رہا تھا کہ یہاں اکثر ہی ڈرائیور اپنی تیز رفتاری کے باعث اپنی کار کو قابو نہیں کر سکتے اور حادثہ ہوتے ہوتے رہ جاتا ہے یا پھر ہو جاتا ہے‘ اسی لئے تیز رفتاری کو ممنوع قرار دیا گیا ہے کیونکہ اپنی جان تو قیمتی ہے ہی دوسروں کی جان بھی بہت قیمتی ہے اورپھر کسی بھی نقصان اور بدمزگی سے بچنے کیلئے مناسب رفتار اور سمجھ بوجھ والی ڈرائیونگ انسان کیلئے بہترین ہوتی ہے ایبٹ آباد موٹر وے پر ایسے خوبصورت نظارے نظرآتے ہیں کہ کچھ لمحات کیلئے انسان بھول جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں ہے رب تعالیٰ نے ہمارے ملک کو کتنے حسین موسموں اور حسین علاقوں سے نوازا ہے موٹر وے کا سفر ختم ہوا اور ہم ایبٹ آباد کی روڈ پر یعنی سلہڈ پر آگئے۔‘ یقینا موٹروے اور عام روڈ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے روڈ بھی تنگ تھی اور اس پر بری بات یہ کہ عید کا دوسرا دن تھا کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں میں ذبح کئے ہوئے جانوروں کی باقیات بھی
 شامل ہو کر عجیب ہی سماں باندھ رہی تھیں‘ بہرحال جلال بابا چوک تک ہم آگئے تھے اسی چوک کے پاس جلال بابا کے نام کا ایک بہت بڑا ہال بھی ہے جس میں میں نے ایک دفعہ کسی کانفرنس میں شرکت کی تھی جلال بابا ایبٹ آباد کی مشہور شخصیت ہیں‘ ہمارے میزبانوں نے ہماری بہترین خاطرتواضع کرکے ہمارے دل جیت لئے‘ مہنگائی کے اس عجیب سے دور میں مہمان نوازی کرنا بھی اب سوچ و فکر کو دعوت دیتا ہے لیکن پشاورکے لوگ دنیا کے جس خطے میں بھی رہتے ہوں وہ اپنے مہمان کو اپنی دل کے قریب رکھتے ہیں جب بھی ہم گاڑی لے کر باہر ہلکی پھلکی سیر کو نکلتے تو کئی کئی جگہوں پر سرسبز ایبٹ آباد دل خوش کر دیتا لیڈی گارڈن بہت بڑا گارڈن ہے‘ تھوڑی دیر کیلئے ہی میں خاص طورپر اندر گارڈن میں گئی جہاں بڑے پتھر کے اندر سرجیمز ایبٹ کے کہے گئے خوبصورت جملے کندہ کئے گئے ہیں‘ تحریر توانگریزی زبان میں ہے لیکن ایبٹ آباد کو دریافت کرنے والے سرجیمز ایبٹ نے جن حسین ترین الفاظ میں ایبٹ آباد کی خوبصورتی کو خراج تحسین پیش کیا ہے وہ کچھ یوں ہے” جب ایبٹ آباد کی خوشبو میں بسی نرم ہواﺅں اور فضاﺅں میں‘ میں نے پہلا سانس لیا تھا تو برف پوش درخت پہاڑ اور زمین میرے سامنے دعوت نظارہ بنی ہوئی تھی میں جیسے اک خواب دیکھ رہا ہوں‘ دور بہت دور ایک ندی نغمہ سرا تھی جیسے اپنی تنہائی کا مدھم راگ گا رہی تھی‘ ہواﺅں کیساتھ سرگوشیاں کررہی تھی یوں جیسے کوئی اپنے دوست کو خوش آمدید کہنے کو آگیا ہے جیسے پائن کے درختوں میں کوئل ایک خوش کن نغمہ بکھیر رہی ہے اور یہ میری ایبٹ آباد سے پہلی محبت تھی‘ میں نے آٹھ سال بڑی خاموشی اور بڑی راحت کے ساتھ یہاں گزار دیئے‘ لیکن آج جب کہ اک روشن دن ہے میں تجھے چھوڑ کر جا رہا ہوں لگتا ہے تیری رعنائیوں میں کبھی نہیں دیکھ سکوں گا‘ تیری ہوائیں میرے لئے سرگوشیوں میں کوئی پیغام نہیں لائیں گی دیکھو یہ میرے چندآنسو موتیوں کی صورت میں تجھے محبت کا آخری تحفہ دے رہے ہیں لیکن تو میرے دل میں ہمیشہ موجود رہے گا
‘ میں تمہیں کبھی بھول سکتا“ سرجیمز ایبٹ کے یہ خوبصورت اور حسین الفاظ پڑھ کر دل پر عجیب اثر ہوا لیکن ایبٹ آباد کی خوبصورتیاں اب ان زمانوں کی طرح نہیں رہیں آبادیاں بڑھ جانے سے نظارے متاثر ہوتے ہیں الیاسی مسجد کے آس پاس اتنا رش تھا کہ گاڑی پارک کرنے کی جگہ نہ ملی مجبوراً دور سے اس مسجد کا نظارہ کیا اور اس چشمے کا دیکھنے کا پروگرام کسی اور دن کیلئے رکھ لیا جس کے بارے میں بہت سن رکھا تھا شملہ پہاڑی خوبصورت سیرگاہ ہے وہاں بھی لوگوں کا جم غفیر اپنی چھٹیاں گزارنے آیا ہوا تھا حکومت نے جنگل کی لکڑیوں سے خوبصورت ریلنگ بنا کر سیاحوں کو کسی حادثے سے محفوظ بنادیا ہے کیونکہ نیچے گہری کھائیاں ہیں یقینا ایبٹ آباد کی سردیاں اور پہاڑ بہت حسین ہوتے ہونگے لیکن شملہ پہاڑی پر بھی لوگوں نے جس طرح کا اپنا لایا ہوا گند پھلایا ہوا تھا وہ لمحہ فکریہ تھا جن سیاحوں نے اینٹوں کے چولہے بنا کر کچھ پکایا ہوا تھا تو وہ راکھ اور کالی اینٹیں تک بھی خوبصورتی کو بدنما بنا رہی تھیں پہاڑوں کے نیچے حد نظر تک ریپرز کاغذ اور خالی شاپرز کے ڈھیر تھے جو سرسبززمین کو دکھ میں مبتلا کرنے کیلئے کافی تھے میں نے دیکھا تمام لوگ اچھے کپڑوں‘ اچھی گاڑیوں میں آئے تھے یقینا وہ صاحب حیثیت تھے پھر کیا وجہ ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے بھی اپنے لائے ہوئے اور اپنے خالی لفافوں کے گند کو جیمز ایبٹ کے خوبصورت رعنائیوں سے بھرے پہاڑوں پر چھوڑ کر جا رہے ہیں کاش میرے یہ الفاظ سیاح پڑھیں اور نہ صرف اپنا گند بلکہ کچھ اور بھی ایک شاپر میں ڈال کر واپس ڈسٹ بن میں ڈال دیں یا پھر کاش سکولوں کے بچے مہینے میں ایک دن ایسا وقف کرلیں کہ ان پہاڑوں کو صفائی مہم کا حصہ بنادیں‘ خوبصورت توانا اورلحیم شیم چیڑ کے درخت شملہ پہاڑی کے حسن میں بے تحاشہ اضافہ کر رہے تھے میری میزبان شمائلہ نے مجھے یہ بتا کر حیرت زدہ کر دیا کہ چیڑ کے درخت کو تنے پر سے ایک (PATCH) حصے کو بھی کاٹ کر کٹ لگا دیا جائے تو کچھ عرصے بعد اسکی گروتھ رک جاتی ہے اور وہ گر جاتا ہے کیا درختوں کو گرانے یا جلانے کا یہ ایک طریقہ ہے لازماً حکومت کے لوگوں کو اس بات کے تدارک کیلئے خاص اقدامات کرنا پڑنگے‘ ساون کی حبس اور گرمی میں بھی شملہ پہاڑی اپنے خوبصورت قدوکاٹھ کے ساتھ ہر ایک کو متاثر کرتی ہے اوپر سے پورا ایبٹ آباد ایک پیالے کی مانند نظر آرہا ہے جو بالکل سفید ہے لیکن لگتا ہے کہ آبادی کا ایک جم غفیر اس پیالے میں موجود ہے۔