افسوسناک اور تشویشناک ہے کہ حالیہ چند برسوں کے دوران‘ پاکستان میں مختلف اقسام کی ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ تشویش ناک ہے کیونکہ اسسے کم عمر بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔ان میں سے کچھ واقعات تو متشددانہ رویوں کے ہیں کہ معمولی بات پر کسی کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر ا س کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی جاتی ہے ۔ یہ ایک طرح سے معاشرتی زوال اور اخلاقی اقدار کمزور ہونے کی نشانی ہے ۔ ایک اور مسئلہ جوشدت سے سامنے آرہا ہے وہ جنسی ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہے ۔ ماضی میں جنسی ہراسانی کے واقعات اکا دکا سامنے آتے تھے جن میں تشویشناک اضافہ اِس بات کی دلیل ہے کہ معاشرے کو اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ روئیوں کو تبدیل کیا جا سکے۔ حال ہی میں پنجاب کے ایک ہسپتال میں ایک مریضہ کو جنسانی ہراسانی کا سامناہوا۔ مذکورہ پیش آیا افسوسناک واقعہ درحقیقت اِس بات کی یاد دلاتا ہے کہ پاکستان میں جنسی ہراسانی سے متعلق مسائل کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اِس واقعہ سے نہ صرف خواتین کا غیر محفوظ ہونا اُجاگر ہوتا ہے بلکہ یہ واقعات معاشرتی روئیوں میں اصلاح اور خواتین کے ساتھ حسن سلوک سے متعلق شعور و تعلیم کے فروغ اور متاثرین کے لئے فوری انصاف یقینی بنانے کی اشد ضرورت کو بھی اُجاگر کر رہے ہیں۔ مذکورہ واقعہ المناک حقیقت کا عکاس ہے جس کی وجہ سے اکثر جنسی ہراسانی ہوتی ہے۔ اس معاملے میں متاثرہ کو مبینہ طور پر نازیبا ویڈیوز کے ذریعے بلیک میل بھی کیا جاتا ہے اس طرح معاشرے میں جنسی تشدد پھیل رہا ہے ، اس کا تدارک کرنے کیلئے ہر حوالے سے جامع تبدیلی کی ضرورت پر مزید غوروخوض کی ضرورت ہے۔ جنسی ہراسانی کے واقعات کا سدباب کرنے کے لئے نوجوانوں کو تعلیم و شعور دینا ہے تاکہ وہ معاشرے میں اپنے جیسے دیگر افراد کا احترام اور اُن کی تفہیم کو سمجھ سکیں اور ایک ایسی ثقافت کو فروغ دیا جائے جس سے معاشرے میں مل جل کر آگے بڑھنے کی صلاحیت ہو۔ہسپتال میں پیش آنے والا مذکورہ واقعہ فیصلہ سازوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ جو لوگ اب بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ جنسی ہراسانی پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے وہ غلطی پر ہیں اور اُنہیں ایک قابل برداشت معاشرے کو بنانے کے لئے قانونی فریم ورک مضبوط بنانے کا مطالبہ کرنا چاہئے تاکہ اِس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ متاثرین کی مدد کی جائے اور مجرموں کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ جنسی ہراسانی کو نہ صرف ایک مجرمانہ فعل کے طور پر دیکھا جانا چاہئے بلکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر بھی دیکھا جانا چاہئے۔ اس ضمن میں سوشل میڈیا پر کنٹرول بھی ضروری ہے جہاں موجود کچھ مواد نوخیز ذہنوں کو متاثر کرتا ہے اور یوں معاشرے میں پرتشدد رویے پروان چڑھتے ہیں۔یہ مسئلہ اب جس شدت کے ساتھ موجود ہے اس کا تقاضا ہے کہ اس طرف فوری توجہ دی جائے اور انتظار کی پالیسی ترک کی جائے۔