پٹرول گرانی کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ نہ تو ہم گھر سے نکلیں گے اور نہ ہی گھر کی خواتین ہی قدم باہر نکال پائیں گی۔ کیونکہ مینا بازار اور خواتین کے دیگر خریداری کے بازاروں تک جانا تو پٹرول کے سہارے ہے ۔پٹرول ہوگا او رنہ ان کا جانا ہوگا ۔ رکشہ والے تو پہلے ہی کرایہ زیادہ وصول کر تے تھے اب تو اوربھی اضافہ ہوگا۔بس اچھا ہے پٹرول کی گرانی کا بہانہ سمجھیے سب لوگ جو مڈل کلاس کے ساتھ واسطہ رکھتے ہیں گھروںمیں نظر بند کر دیئے جائیں گے۔سو میرے بھائی موٹر سائیکل کو ڈیوڑھی میں ایک طرف کر کے کھڑی کر دو کہ اندر آتے کسی کا شوگر والا پا¶ں زخمی نہ ہو ۔ اس پر خیر سے کالا کپڑا چڑھا کر بس رکھ دو اور پٹرول کے سستے ہونے کا انتظار کرو اور ساتھ چارپائی ڈال کر بیٹھ جا¶ بلکہ سودا سلف ہو توپیدل مارچ کرو اور مارچ کے مہینے تک دیکھو شاید کوئی سبیل نکل آئے وگرنہ تو گھر تو اپنا قید خانہ سمجھو اور اپنے آپ کو اس پنجرے میں نظر بند جانو اور زندگی کے باقی کے دن اگر گزارے نہ گزرے تو پھر بھی گزارو ۔بلکہ فضول آوارہ گردی کی ضرورت ہی کیا ہے۔بس لڑکے بالے بھی آرام سے بیٹھ جائیں اور اپنا سبق یاد کریں لیکن کوشش کریں کہ اتنا بھی یاد نہ ہو کیونکہ بعض اوقات سبق یاد ہو جائے تو چھٹی نہیں ملا کرتی ۔اچھا ہے گھر میں دبک کر بیٹھ جائیں گے ۔ کہیں سے آئیں گے اور نہ کہیں کہیں جائیں گے۔ گھر سے نکلنے سے پیشتر سو بار سوچیں گے کہ جانا چاہئے یا نہیں۔ اگر کوئی تقریب ہو اس بارے میں بھی سوچیں گے کہ آیا ضروری بھی ہے کہ نہیں۔اگر بہت نا گزیر ہوئی تو راستوں کے متعلق سوچیں گے کہ کس راستے سے جانا ہے۔تاکہ فاصلہ کم پڑے اور یوں پٹرول کم خرچ ہو ۔بلکہ کرنا تو ایسے چاہئے کہ جا کر زمین کی خریدو فروخت کے وقت پیمائش والے فیتے سے ساتھ پیدل کسی کو لے جا کر جہاں منزل تک جانا ہے وہاں راستہ ناپیں گے اور گھر آکر موبائل کے حساب کی ایپ پر جمع تفریق کر کے پھر گھر سے موٹر سائیکل نکالیں گے ۔ مگر اس پیمائش میں عمر کا پیمانہ بہت کم ہو جائے گا۔ وہاں پروگرام کے انعقاد کو ہفتہ بھر ہو چکا ہو گا اور ہم یہاں ناپ تول میں مصروف ہوں گے ۔صاحبو کیا کریں یہ الٹی پلٹی باتیں یہ الم غلم یہ اول فول منہ سے اسی لئے نکل رہا ہے کہ کانوں نے یہ سن لیا ہے کہ بہت جلد ہی پٹرول کا ایک قطرہ اسی روپے میں فروخت ہوگا۔ سو ان اوٹ پٹانگ باتوں کا لب و دہن سے جاری ہونا تو ضروری ہوا ۔ہاں یہاں تو ہم بارش کا انتظار کر رہے ہیں۔ پھر ایک مدت سے ابرِباراں کے برس برس جانے پر دعاگو ہیں کیا عجب ” آسماں سے پٹرول اگر برسا کرے“ ۔ واہ واہ لوگ اپنے مٹکے اور گھڑے اور کین لے کر گھر کے باہر پرنالوں کے نیچے کھڑے ہوجائیں‘ مگر اس میں گھر گھر آگ لگ جانے کا بھی تو اندیشہ ہے ۔یہ ڈنگ ٹپا¶ باتیں تو ہیں مگر دکھے ہوئے دل کی فریاد ہیں ۔لے دے کے ایک ہی تو اڑن کھٹولا ہے جس کے ہم مالک ہیں مگر اس کی عارضی ملکیت کے دعویدار ہیں ۔ یوں کہ جب تلک اس کی قسطیں پوری نہ ہوں اس کے کاغذ بھی ہمیں نہیں ملنے والے ۔یہ جدا بات ہے کہ ہم نے عارضی ملکیت میں ہی اس کو سڑکوں پر اتنا گھسیٹا ہے کہ اس کا کباڑا نکال دیا ہے ۔اخبار سامنے ہے اور ہم چہرے تلے ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں او رپریشان ہیں ۔مگر اس لئے حیرانی نہیں کہ پٹرول کی یہ قیمت زیادہ ہوگئی ہے ۔فکرمندی اس لئے کہ آئندہ یہ تین سے اوپر چلا نہ جائے ۔ کیونکہ صرف پٹرول ہی نے تودسترس سے باہر نہیں ہونا۔خرید و فروخت کی تمام اشیاءگاڑیوں میں لاد کر دکانوں میں ان لوڈ کی جاتی ہیںاس لئے گھریلو استعمال کی چیزیں بھی مہنگی ہوجائیںگی۔پھر دوسری طرف جو باقی کی کسر ہے وہ ڈالر نے نکال دی ہے۔وہ بھی تین سو کے لگ بھگ پہنچ چکا ہے۔دونوں کی ریس لگی ہوئی ہے دیکھیں آگے کون جاتا ہے۔ننھی پوچھ رہی تھی کہ پھریہ پٹرول سستا کب ہوگا ۔ہا ہا ہا میں نے کہا بیٹا اب تو ہم نصف سنچری سے اوپر زندگی کی مدت سے کھیل رہے ہیں کیاپتا کہ کس وقت آ¶ٹ ہونا ہے مگر جہاں تک ہم نے دیکھا جو چیز ایک بار مہنگی ہوئی وہ پھرکبھی سستی نہیں ہوئی ۔والد صاحب نے کہا تھا ہماری پیدائش کے وقت سونا ساٹھ روپے فی تولہ تھا اب دیکھو لاکھو ںکا ہیر پھیر ہے۔