پاک افغان تعلقات میں کچھ اہم پیش رفت ہوئی ہے‘ یکم اگست کو وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے معاملے پر امارت اسلامیہ افغانستان سے رابطہ کیا اوردوٹوک رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنے دفاع کے لئے بین الاقوامی قوانین کے تحت کاروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے‘اگر افغان حکام پاکستان مخالف دہشت گرد عناصر کے خلاف کاروائی نہیں کرتے ہیں تو پھر پاکستان جوابی کاروائی کر سکتا ہے لیکن ایسا کرنا پہلا آپشن نہیں ہوگا‘ انہوں نے اِس توقع کا اظہار بھی کیا کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کرے گی اور افغان سرزمین اور افغان وسائل کا پاکستان کے خلاف استعمال روکے گی‘پاکستان کو افغانستان سے ہونے والے حملوں پر تشویش ہے کیونکہ ان میں اضافہ ہو رہا ہے اور اِس پر پاکستان کی بے چینی فطری ردعمل ہے‘ پاکستان کے لئے یہ بات زیادہ حیران کن ہے کہ افغان سرزمین کا استعمال پاکستان کے خلاف کھلم کھلا اور علی الاعلان ہو رہا ہے لیکن افغان حکومت پاکستان مخالفین کے خلاف کاروائی نہیں کرتی۔ افغانستان کے عبوری وزیر دفاع ملا یعقوب نے اگست کے پہلے ہفتے کے دوران ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان سے باہر حملے جہاد نہیں بلکہ حرام ہیں۔ سات اگست کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پشاور میں ایک قبائلی جرگے کے دوران ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے فوج کے مو¿قف کو دہراتے ہوئے افغان حکومت پر دباو¿ میں اضافہ کیا‘ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ”دہشت گردوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اگر وہ اپنے غلط راستے پر چلتے رہیں تو انہیں تباہ کر دیا جائے لیکن اگر وہ ریاست پاکستان کی رٹ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں تو یہ اُن کے حق میں بہتر ہوگا “حال ہی میں افغانستان کے لئے مقرر کردہ خصوصی نمائندے آصف درانی نے کابل کے اپنے تین روزہ دورے کے دوران آئی ای اے کو یہی پیغام دیا ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کو روکنے کے لئے دوحا معاہدے کے تحت کئے گئے اپنے وعدوں پر قائم رہے۔ مولوی اخونزادہ کی جانب سے پاکستان کے خلاف حملوں کو حرام قرار دینے کے مبینہ ’ایگزیکٹو آرڈر‘ کو سراہتے ہوئے اس پر عمل درآمد کرنے کے لئے زور دیا اور کہا کہ مذکورہ حکم نامے کو عام کیا جائے تاکہ اس کے مثبت اثرات ظاہر ہوں اور پاکستان کے خلاف افغانستان میں بیٹھ کر دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی اور اِن حملوں کے لئے سہولت کاری فراہم کرنے جیسے عوامل میں کمی آئے‘تازہ ترین پیشرفت یہ ہے کہ پاکستان کابل کے ساتھ ”مذہبی سفارتکاری“ کو آگے بڑھانا چاہتا ہے اور اِس سلسلے میں پاکستان سے مختلف مسالک کے نمائندوں پر مشتمل وفد نے حال ہی میں افغانستان کا دورہ بھی کیا ہے ان کوششوں کی کامیابی سے کئی فائدے حاصل ہونگے۔