افغانستان پاکستان سے وہ سب کچھ حاصل کر رہا ہے جو اُسے چاہئے لیکن پاکستان کو وہ سب کچھ دینے کو تیار نہیں جو پاکستان کی ضرورت ہے۔ توجہ طلب ہے کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ درحقیقت ایک ہاتھ سے بجنے والی تالی ہے‘ جس کی گونج پاکستان کے اعصاب مفلوج کر رہی ہے آخر پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیونکر ممکن ہو پائے گا؟ اِس سلسلے میں غوروخوض کے مراحل کا پلڑا ہمیشہ ہی سے افغانستان کے حق میں رہا ہے اور ایسا ہونے کی بنیادی وجہ جذبہ ہمدردی کے تحت وہ ’انسانی دباو¿‘ ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان ہمیشہ مصلحت اور اِس یقین سے کام لیتا ہے ایک دن افغانستان کو ازخود احساس ہو جائے گا کہ اُسے پاکستان کے ایثار کا جواب کس لب و لہجے اور کس طرح کے تعاون کی صورت دینا چاہئے۔ قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ ایک روزہ سرحدی اجلاس میں ’ٹرانزٹ ٹریڈ‘ سمیت مختلف امور بشمول سازوسامان کی جلد جانچ پڑتال کے مراحل میں تاخیر اور زیر التوا کلیئرنس پر تبادلہ خیال کیا گیا تاہم دوطرفہ اور تجارتی عمل کو ہموار طریقے سے چلانے کے لئے باقاعدگی سے ملاقاتوں کے باوجود بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی جا سکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے اقدامات تعطل کا شکار ہیں‘ جس پر پاکستان اور افغانستان کی جانب سے تشویش کا اظہار سامنے آیا ہے۔اجلاس کے دوران پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی جانب سے ٹرانزٹ ٹریڈ کے دوہزاردس کے معاہدے پر اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ سامنے آیا ہے جس پر عمل درآمد میں تاخیر کا سامنا ہے۔ اس تجارتی معاہدے کو عملی جامہ پہنانے میں ایک دہائی سے مشکلات پیش آ رہی ہیں اور اگر جلد عمل درآمد نہ کیا گیا تو بصورت دیگر کاروباری طبقے اور سرحد پار افغانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وقت ہے کہ معلوم رکاوٹوں کو دور کیا جائے کیونکہ یہ تاخیر سرحد کے دونوں اطراف کے اسٹیک ہولڈرز پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے اور نقل و حمل کے ایک ایسے نظام کی نشاندہی بھی کر رہی ہے جو دونوں ممالک کے لئے نقصان دہ ہے اور باوجود تمام تر کوشش بھی مناسب طریقے سے کام نہیں کر رہا۔ اِس سلسلے میں کئی ایک رکاوٹیں بھی ہیں جیسا کہ پاک افغان طورخم سرحد پر نئے ٹرمینل کی تعمیر‘ جس کے نتیجے میں بہت سی شپمنٹ اور سامان کلیئر نہیں ہو رہا۔ خوش آئند ہے کہ دونوں فریق کارگو کی نقل و حمل کی لاگت‘ ویزا جاری کرنے کے عمل میں آسانیاں اور لاجسٹک سے متعلق امور و خدشات پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں اور عرصہ دراز سے حل طلب معاملات کو اگر آئندہ اجلاس تک مو¿خر رکھنے کی بجائے اگر عمل درآمد کیا جائے تو اِس سے تحفظات و خدشات اور شکایات کا ازالہ ممکن ہے۔پاک افغان راہداری اور تجارت میں درپیش مسائل کا جائزہ لینے کے لئے دو طرفہ تاجروں کی ملاقات پندرہ روزہ بنیادوں پر کرنے کی تجویز پر عمل درآمد بھی ضروری ہے اور اِس بات چیت کا دائرہ¿ کار وسیع بھی ہونا چاہئے۔ افغانستان عرصہ دراز سے جنگ‘ بدامنی اور معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے جو تصویر کا ایک رخ ہے اور یوں لگتا ہے کہ افغانستان کے اِن مسائل کو ایک خاص مقصد و ہدف کے لئے رکھا گیا ہے تاکہ افغان سرزمین اور وسائل ہمسایہ و دیگر ممالک کے خلاف استعمال کئے جا سکیں اور افغانستان اپنے ملک کی معیشت رواں دواں رکھ سکے افغان حکومت کو تبدیل ہوئے دو سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور اِن دو برس میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اِنتہائی کشیدہ ہیں جنہیں معمول پر لانے کے لئے ضروری ہے کہ صرف تجارت ہی نہیں بلکہ اُن سکیورٹی خدشات کو بھی پیش نظر رکھا جائے‘ جو پاکستان کے لئے مستقل خطرہ بنے ہوئے ہیں اور یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدات غیرمحفوظ ہیں جنہیں محفوظ بنائے بغیر دیگر سبھی امور بے معنی اور غیر متعلقہ ہیں ‘یہ بات افغانستان کے گوش گزار کرتے ہوئے پاکستان کی ترجیحات اور توقعات کا جائزہ بھی لینا چاہئے۔