شارٹ کٹ رستے 

پشاور سے بلوچستان جانے کیلئے ایک شارٹ کٹ رستہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ٹانک سے جنوبی وزیرستان جانے والی سڑک سے براستہ تناہی جو سڑک فورٹ سنڈیمن کو جاتی ہے اسے چوڑا اور دو رویہ کر دیا جائے اسی طرح ٹانک سے فرنگی منزہی تک جو ریلوے ٹریک بچھا گئے ہیں اسے بھی براستہ تناہی فورٹ سنڈیمن اور پھر آگے کوئٹہ تک بڑھایا جا سکتا ہے اس روٹ پر سڑک یا ریل گاڑی سے جانے والے مسافر اگر پشاور سے صبح روانہ ہوں گے تو اسی دن شام کو وہ کوئٹہ پہنچ سکیں گے اسی طرح پشاور کو مہمند ایجنسی میں واقع نوا پاس روڈ کے ذریعے نہ صرف چترال سے سڑک کے ذریعے ملایاجاسکتا ہے بلکہ اس سڑک سے افغانستان جانے کے واسطے بھی ایک متبادل راستہ مل سکتا ہے اس ضمن میں ہماری وزارت خارجہ اور داخلہ کو افغانستان اور ایران کے ساتھ سنجیدہ گفت و شنید کا سلسلہ شروع کرنے کی ضرورت ہے‘ پاکستان سے ایران جانے والے افراد کو طورخم سے آگے جلال آباد اور ہرات سے گزرنے کی اگر افغانستان ہمیں اجازت دے دے توچند گھنٹوں کے سفر کے بعد پشاور سے ایران پہنچا جا سکتا ہے اس قسم کے زمینی سفر سے زائرین اور دیگر سیاحوں کو ایران جانے کیلئے ایک سستا اور نزدیکی ترین راستہ مل سکتا ہے اس طرح ان راستوں پر ہوٹلوں ریسٹورانوں اور ٹرانسپورٹ سے متعلق افراد کے کاروبار میں بہتری کی صورت بھی پیدا ہو سکتی ہے حیرت اس بات پر ہے کہ ان نزدیک ترین راستوں کے استعمال کے آپشنز پر اس ملک کے ارباب بست و کشاد نے گزشتہ 75برسوں میں سنجیدگی سے غور کیوں نہیں کیا گرمیوں میں سیاحوں کا سارا زور گلیات اور کوہ مری پر ہوتاہے چترال اور اس میں واقع کالاش کی وادی کو سیاحت کے نقطہ نگاہ سے آج تک ڈیویلپ نہیں کیا جا سکا ہے مہمند ایجنسی میں واقع نواپاس کا جو ہلکا سا ذکر ہم نے اوپر کی سطور میں کیا ہے اس رستے کی سڑک کی اگر توسیع کر دی جائے اور نواپاس کے آگے ارندو تک افغانستان کی حدود میں جو سڑک موجود ہے اس پر پاکستان سے جانے والی ٹریفک کو افغانستان اپنی حدود میں سے گزرنے کی اجازت دے دے تو ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو سال کے بارہ ماہ پشاور سے چترال جانے کا ایک زریں موقع مل سکتا ہے اسی روڈ پر ارندو اور میرکھنی سے پھر آگے چترال کی حدود شروع ہو جاتی ہے پشاور سے چترال ہوائی جہاز کا سفر کرنے والوں کو اس روڈ سے چترال کا سفر سستا پڑے گا ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد اگر چند تازہ ترین قومی اور عالمی معاملات پر ایک تنقیدی نظر ڈال دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا‘پرانی اسمبلیماں نئے الیکشن کے مجوزہ انعقاد کے پیش نظر تحلیل ہو چکی ہیں‘ وقتی طور پر نگران حکومتوں نے وفاق اور صوبوں میں کام سنبھال لیا ہے ‘ایک عرصہ دراز سے ہمیں پھر لیاقت علی خان سردار عبدالرب نشتر ‘خان عبدالولی خان ‘خان عبدلقیوم خان حسین شہید سہروردی مولوی فرید ذوالفقار علی بھٹو غوث بخش بزنجو میاں ممتاز دولتانہ نواب زادہ نصراللہ خان مولانا مودودی مفتی محمود مولانا نورانی میاں محمود قصوری اور صمد خان اچکزئی اور باقی صدیقی جیسے ٹھنڈے دماغ اور سیاسی فہم وادراک رکھنے والے دور اندیش قسم کے اراکین پارلیمنٹ دیکھنے کو نہیں ملے یہ سب لوگ ایشوز پر بولتے تھے ایک دوسرے کے خلاف ہرزہ سرائی نہیں کرتے تھے جب وہ تقریر کرتے تو ان کے منہ سے جیسے پھول جھڑتے‘ انہوں نے کبھی بھی بھونڈے انداز سے اسمبلیوں کے فلور کے تقدس کو پامال نہ کیا ‘نہ ایک دوسرے سے کبھی مشت وگریبان ہوئے اور نہ گالم گلوچ پر مبنی زبان استعمال کی قوم صرف امید ہی کر سکتی ہے کہ نئے الیکشن میں ہماری اسمبلیوں میں اراکین کی جو نئی پود آئے گی‘ اس ضمن میں ہر سیاسی پارٹی کے قائدین کافرض بنتا ہے کہ وہ قومی اسمبلی بشمول صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کی ممبر شپ کے واسطے صرف ان افراد کو الیکشن لڑنے کا ٹکٹ دیں جو بکاﺅ مال نہ ہوں اور اچھی عمومی شہرت کے مالک ہوں اور ان کا سیاسی کیریئر کسی لحاظ بے بھی داغدار نہ رہا ہو اس ملک میں مختلف مافیاز سے تعلق رکھنے والے افراد کایہ شیوہ رہا ہے کہ وہ ایوان اقتدار میں آنے کیلئے اس سیاسی پارٹی کی بھاری فنڈنگ کرتے ہیں کہ جس کے اقتدار میں آنے کا ان کو یقین ہو جائے اور اس طرح اس پارٹی کی قیادت کے منظور نظر بن جانے کے بعد الیکشن کے وقت اس کا پارٹی ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔