جب سوشل میڈیا نے دنیا میں آنکھ کھولی

 جب ہم الیکٹرانک میڈیا میں نووارد تھے اور حروف ابجد سیکھ رہے تھے تو سب سے مشکل مجھے ایڈیٹنگ اور ڈبنگ کرنا لگتا تھا۔ ریڈیو پروگرام کے اپنے دئیے ہوئے وقت کے مطابق منٹس اور سیکنڈز کے حساب سے اسی طرح جوڑنا اور کاٹ چھانٹ کر ایسا بنا دینا کہ سننے والے کو گمان تک نہ ہو کہ اس کو کاٹا ہوا ہے۔ جوڑا ہوا ہے اور سوچ سمجھ کر بنایا ہوا ہے۔ ڈرامہ‘ فیچر‘ ڈسکشن پروگرام اور خاص طور پر انٹرویوز کو ڈب کرنا۔ ایڈیٹ کرنا پروڈیوسر کے لئے نہایت چوکنا‘ ہوشیار اور ذہین ہونا ضروری ہوتا تھا کہ معاشرے کی نبض پر بھی اس کا ہاتھ ہو۔ اخلاقی اقدار کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں خاص طور پر مدنظر رکھا جاتا تھا۔ ایک ایک حرف اور ایک ایک بولنے والے لفظ پرچیکنگ کا ایسا خودکار نظام سینئرز نے بنایا ہوا تھا کہ ہر ایک کو جواب دہ ہونا پڑتا تھا۔ پروگرام نشر ہونے کے بعد سینئرز کی بنیاد پر ہونے والی میٹنگ میں جو باتیں اور تنقید سننے کو ملتی تھی اس سے اپنے حوصلوں کو ٹوٹنے کے باوجود ہر صورت میں بلند رکھنا بھی ہوتا تھا کہ اگلا پروگرام اور اس کی ریکارڈنگ / ایڈیٹنگ کی تلوار سر پر لٹک رہی ہوتی تھی۔ وقت بڑا ظالم ہے۔ ہر چیز کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ شکلیں بگاڑ دیتا ہے۔ جھریاں ڈال دیتا ہے۔ میڈیا کے ساتھ بھی وقت نے ایسا برتاﺅ کیا کہ اس میں ایسی جدت اور تنوع آیا کہ ایک چھوٹے سے اشتہار سے لے کر فلم تک سب کو بدل ڈالا‘ زندگی ذرا اور آگے بڑھی تو سوشل میڈیا نے اس دنیا میں انگڑائی لے کر آنکھ کھولی۔ آج صرف فیس بک کی قلابازیوں پر ہی بات کرلیتے ہیں۔ اس کے مالک کو خود بھی احساس نہیں تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ امریکہ کی سینٹ میں اس کو اپنی اس ایجاد کا جواب دہ ہونے کے لئے پیش ہونا پڑ جائے گا۔ وہ تو صرف اربوں کھربوں ڈالر کما کر اپنے اکاﺅنٹس بھر رہا تھا۔ امریکہ کے صدارتی انتخاب نے اور پھر منتخب صدر کے سوشل میڈیا پر تمام دنیا کے رہنماﺅں‘ صدور‘ عوام کے تابڑ توڑ حملوں سے امریکہ کو احساس ہوا کہ ہمیں دنیا کی ایک اور بڑی طاقت روس نے فیس بک کا سہارا لے کر شکست دینے کی کوشش ہے کہ ہماری پولنگ میں فیس بک پر ایسی خفیہ مہم چلائی گئی اور ہمارے ملک کو ایسا صدر دے دیا جس کو کسی کی پرواہ ہی نہیں ہے اس کے اپنے اصول ہیں اپنی حکمت عملی ہے اپنی پالیسی ہے وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور امریکہ کا سپریم پن خطرے کی لکیر پر آگیا ہے اور یہ درست ہے کہ فیس بک پر جس طرح آج کا عام اوسط تعلیم یافتہ انسان بھی لاکھوں گھنٹے گزارنے لگا ہے آخر وہ کیسے اس کے سحر انگیز اثرات سے محروم رہ سکتا ہے۔ بہتیرا سائنس دانوں نے ڈراولے دئیے کہ آنکھیں روشنی سے محروم ہوجائیں گی۔ دماغ شل سے ہوجائے گا۔ وقت ضائع ہوگا۔ خاندانی زندگی متاثر ہوگی۔ کان کا کینسر ہوجائے گا اور نہ جانے کیا کیا۔ لیکن یہ ایک ایسا جادو ہے کہ چلتے ہوئے بات کرتے ہوئے کھاتے ہوئے۔ پڑھتے ہوئے۔ سفر کرتے ہوئے حتیٰ کہ سوتے ہوئے بھی اس کو دیکھنا اور یکطرفہ طور پر بغیر منہ ہلائے اپنا کام کرتے رہنا۔ اس جادوگر سے تو کوئی بھی نہیں بچ سکا۔ ہاں ترقی یافتہ دنیا اور سب سے بڑھ کر ترقی پذیر دنیا کے بڑے بڑے لوگ پریشان ہیںبلکہ ان کی نیندیں حرام ہیں کھانا پینا ختم ہوگیا ہے۔ تمام حربے ناکام ہوگئے ہیں۔ ان کی ایک ایک حرکت ایک ایک بات ایک ایک زیادتی اور جرم اس بغیر ایڈیٹنگ کرنے والے اور اپنے تیز رفتار پروگرام کو اپ لوڈ کرنے والے عام پروڈیوسرز نے مسئلے بنا دیئے ہیں‘ اپنی نجی محفلوں میں وہ لطف اندوز ہورہے ہیں۔ گاڑیوں کے جوق در جوق قافلوں میں وہ عنان حکومت کرتے ہوئے دھوم دھام سے جارہے ہیں ان کی اولادیں‘ غریب عوام کی محنت سے کمائی گئی رقم سے جو کچھ تعلیم حاصل کرنے کے کام پر کررہی ہے۔ لاکھوں ڈالروں کی شاپنگ کررہی ہے پھر کچھ بھی تو نہیں رہا جو پوشیدہ رہ جائے اور وڈیوز کا ایسا طوفان ہے کہ لوگ جو غاجز آ گئے تھے کہ کسی طرح اپنے رہنماﺅں کی اپنے ادارے کے سربراہوں کی غلط باتوں کو سامنے لائیںسب سے زیادہ تالیاں وہی بجا رہے ہیں‘ تھانے میں رپورٹ نہیں لکھوا سکتے اپنا بدلہ لینے کا کیا خوب طریقہ ہے۔ سیکنڈز کی ویڈیو بنائی اور سیکنڈز میں ہی ساری دنیا میں پھیلا دی۔ امریکہ کے صدر سمیت سب روتے رہتے ہیں ٹویٹ کرتے ہیں۔ بیانات دیتے ہیں کہ سب جھوٹ ہے۔ ہم ایسے نہیں ہیں۔ ہم تو عوام کے فرمانبردار ہیں لیکن عوام لڈو والا بھنگڑا ڈال رہی ہے کہ آپ بھی ہم سے بچ کے رہیں بلکہ سوشل میڈیا کے پروڈیوسرز دھڑلے سے بدزبانی کرتے ہیں اور ہنستے ہیں قہقہے لگاتے ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیاں ایسے ہی مواقع استعمال کرکے پیسے کما رہی ہیں اور بڑے بڑے نفسیاتی مریض بھی یہ طریقے استعمال کرکے اپنی ذہنی تسکین کررہے ہیں ‘ کچھ بھی تو پوشیدہ نہیں رہا۔ اگر واقعی میں اسی بہانے سے غریب اقوام کی فلاح و بہبود کے لئے قائدین اپنے رویے بدل ڈالتے ہیں تو پھر جدیدیت تو ہماری بھی ہر دلعزیز ہوسکتی ہے۔۔