ممنوعہ بور  کے اسلحہ پر پابندی 

 نگران وفاقی حکومت نے اچھا کیا جو اسلحہ کے لائسنسوں کے اجرا پر پابندی لگا دی‘ بہتر یہ ہوتا اگر اس قسم کا آ رڈر کیا جاتا کہ آئندہ کسی بھی فرد کو ممنوعہ بور کے اسلحہ کا لائسنس بالکل جاری نہیں کیا جائے گا  کیونکہ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ کلاشنکوف جیسے مہلک اسلحے کی عام آدمی کے ہاتھوں میں موجودگی سے وطن عزیز میں امن عامہ کی صورتحال بگڑی ہے اصولی طور پر ممنوعہ بور کا ہر قسم  کا اسلحہ  بشمول کلاشنکوف صرف اور صرف افواج پاکستان‘ پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے پاس ہونا چاہئے‘ بے شک دشمنی رکھنے والے افراد کو اپنی حفاظت کے واسطے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلحے کے لائسنس جاری کریں پر وہ غیر ممنوعہ بور کے اسلحہ کے ہوں‘ممنوعہ بور کے اسلحہ  کے بارے میں  ارباب اقتدار کو ایک واضح پالیسی مرتب کرنا ہوگی کہ کس طریقے سے یہ اسلحہ  لیا جائے اور کوئی میکنزم  طے کر کے ان کی قیمت ان کو ادا کر دی جائے اس طرح ان سے یہ اسلحہ لے کر اسے پولیس یا فوج کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔اب آتے ہیں دیگر امور کی جانب‘ روس نے بھی اپنے تعلیمی نصاب میں جواں سال طلباء وطالبات کے واسطے  عسکری تربیت کے مضمون کو تعلیمی نصاب میں شامل کر دیا ہے‘ جس میں ان کو ان کو سکھایا جائے گا کہ کلاشنکوف  کے حصوں کو کیسے کھولا اور جوڑا جاتا ہے اور   میدان جنگ میں اس کے استعمال کا کیا طریقہ ہے‘ نیز ان کو دستی بموں سے حملہ کرنے کا طریقہ بھی سکھلایا جائے گا ان کو اس بات کی بھی تربیت دی جائے گی کہ جنگ کے دوران  زخمیوں کا ابتدائی طبی علاج کیسے کیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔یوکرائن کے پائلٹس کی ایف 16 طیاروں کو اڑانے کی  تربیت ختم    ھوتے ہی امریکہ نے اعلان کر دیا ہے کہ اب وہ یوکرائن کو ایف 16جنگی طیاروں کی پہلی کھیپ فراہم کر رہا ہے جو یوکرائن روس کے خلاف استعمال کرے گا اس ضمن میں واشنگٹن جس چابک دستی کا مظاہرہ کر رہا ہے وہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ وہ روس کے خلاف یوکرائن کی ہلہ شیری کرنے سے بالکل باز نہیں آ رہا خدشہ یہ ہے کہ جس قدر روس اور یوکرائن کی جنگ طول پکڑے گی اس قدر دنیا میں تیل گیس اور  گندم کی دستیابی کابحران شدید ہوتا جائے گا اور تیسری عالمگیر جنگ کے بادل بھی  دنیا کے  سر پر منڈلاتے رہیں گے۔ جلد یا بدیر الیکشن تو ہو جائے گا پر اس بات کی کیا کوئی گارنٹی ہے کہ اس میں شکست خوردہ لوگ دھاندلی دھاندلی کی رٹ لگا کر عوام کو ایک مرتبہ پھر ذہنی خلفشار کا شکار نہیں کریں گے اور ملک میں معاشی بحالی کا عمل ایک مرتبہ پھر ٹھپ ہو کر رکے گا نہیں‘محب وطن لوگ اس لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ الیکشن سے پہلے اگر تمام سٹیک ہولڈرز کا آپس میں الیکشن کے ہر پہلو پر ضابطہ اخلاق کی شکل میں اتفاق ہو جائے تو وہ ملک کی بقاء کیلئے بہتر بات ہوگی۔