کب یہ مراد پوری ہو 

موسم کا حال پڑھ پڑھ کر ہم خود بے حال ہو گئے ہیں ۔ہوا تو چلتی ہے او ربہت تیز چلتی ہے مگر بارش کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہوتا۔گھنے بادل بھی آ جائیں شاید غمگین لوگوں کو دلاسا دینے آتے ہیں ۔تندور پر روٹیاں لے رہے تھے کہ اچانک آندھی چلنا شروع ہوئی اور اس طرح کہ اب تو جیسے سب کچھ اُڑا کر لے جائے گی ۔ایک گاہک نے جو اپنے نمبر کے آنے کے انتظار میں تھاکہا اوہ ابھی بارش شروع ہو جائے گی۔ پھر کچھ صورتِ حال بھی ایسی ہی تھی۔کیونکہ ننھی ننھی بوندیں بھی جسم پر گرتی محسوس ہوئیں۔تندور والا چونکہ ہر وقت سڑک کے کنارے اپنی دکان کے تھڑے پر بیٹھا موسم کی یہ آنکھ مچولیاں دیکھتا رہتا ہے سو وہ موسم کے محکمے والوں سے زیادہ سمجھدار لگتا تھا۔کہنے لگا نہیں ہوتی نہیںہوتی بارش۔میں نے سوچا کہ میرا نمبر جلد آئے اور میں روٹیاں سمیٹ کر یہاں سے نودو گیارہ ہو جا¶ں او رگھر کی دہلیز کو چُھو لوں کیونکہ یہاں بارش میں پھنس گیا تو وہاں گھر میں دسترخوان سے لگے بیٹھے لوگ منتظر ہی رہ جائیں اور میں ندی نالوں کے اس منظر نامہ میں کہیں الجھ کر ہی نہ رہ جا¶ں۔ مگر میں بھاگ کر گھر تو آ گیا ۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد کہ موسم مزید خوشگوار ہو کر بادلوں کی مشکیں انڈیل جاتا الٹا دھوپ ہی نکل آئی۔میں نے دل میں تندور والے کو آفرین کہا ۔صاحب معاملہ یہ ہے کہ ہوا چلتی ہے اور بہت تیز کہ ابھی ہوئی بارش اور ابھی ہوئی مگر ہو نہیںپاتی۔” جانے والے کو نہ روکو کہ بھرم رہ جائے۔ تم نے روکا بھی تو کب اس کو ٹھہر جانا ہے“۔” ہم نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں ۔حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں“۔اب بھلا ہماری خواہش ہے کہ پشاور کے آسمان پر بادل منڈلائیں کالی گھٹائیں چھائیں اور پانی برسائیں ۔مگر خواہش سے کیا ہوتا ہے۔مشکل اور بہت بڑے کام قدرت کے فضل و کرم سے ہوتے ہیں۔پچھلے پندرہ دنوں میں تو موقع بہ موقع بارش کے وہ آثار پیدا ہوئے کہ ابھی شہر کی سڑکیں تالاب کا نمونہ پیش کریں گی مگر وہی سوکھے کا موسم وہی دھوپ ۔شاید پشاور کو بارش والے شہروں سے باہر نکال دیا گیا ہے۔کیونکہ ابھی پرسوں تو راوالپنڈی اور اسلام آباد میں ابر جم کر برسا تو یہاں بھی شام کو ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں۔اے سی بند کردیئے گئے بلکہ چھت کے پنکھے کے ساتھ اضافی طور پر زمین پر کھڑے پنکھے بھی روک دیئے گئے۔موسم بہت خوشگوار ہوا اور درختوں کی چھا¶ں والے علاقے میں تو درخت جھولنے لگے اور آپس میں اس خوشی میں بار بار گلے مل کر ہاتھ ملاتے تھے ۔ آر پار سے دوستوں یاروں کے وٹس ایپ پر ان کے علاقوں میں تیز بارش کے پیغامات بھی وصول ہو رہے ہیں ۔جو پشاور کے اس جلتے موسم پر جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں۔حالانکہ آگ پر پانی برسے تو آگ بجھ جاتی ہے ۔مگر یہ کیسی آگ ہے جو اور تیز ہوئی جاتی ہے۔ایک شعر میں شاعر نے کہا ہے کہ کل رات کو بارش کی تیز ہوا میں آکر ذرا دیکھو تیری یاد نے آگ لگا دی ہے ۔ خیر یہ تو شاعروں کے اپنے درد ہیں جو وہ گاہے گاہے جگاتے رہتے ہیں کبھی بارش میں اور کبھی تیز ہوا کے نام پر ۔اس وقت کئی اشعار کمپیوٹر کی بورڈ پر تھرکتی ہوئی ان رقص کرتی انگلیوں کی پوروں پر لرز رہے ہیں۔اگر ہم اس طرف گئے تو یہاں تحریر کو مناسب اختتام تک پہنچانا گراں تر ہو تا جائے گا۔ بھائیو کہنا یہ تھا کہ موسم کے ماہرین کی طرف سے روزانہ جو ایس ایم ایس وصول ہو رہے ہیں ان میں سے ہر برقی مراسلے میں لکھا ہوتا ہے کہ کسان بھائی آج آپ کے علاقے میں تیز بارش گرد چمک کے ساتھ ہوگی ۔ہم کسان تو نہیں مگر بھائی لوگ کسان ہیں اور کسانوں کے علاقے میں ہماری رہائش کا بحری جہاز لنگر انداز ہے جانے کس وقت اذنِ روانگی ملے مگر جب تلک کہ لنگر کی رسی مضبوط ہے ہوا ہم کو یہاں سے دور بیچ منجھدار کے دھکیل نہیں پائے گی۔ کسانوں کو تو خبردار کر دیتے ہیںکہ بارش ہوگی اور تیز ہوگی اپنی فصل کا غم کریں مگر وہ تو اس غم میں گھلے جاتے ہیں کہ بارش ہو او رمناسب مقدار میں ہو تاکہ ہریالی بھی ہر سُو ہو اور تباہی چار اطراف نہ ہو ۔ ویسے اس وقت تک کہ کالم کے لئے انگلیاں راکھ میں گھوم گھوم کر کالم کی کوئی شکل بنا رہی ہیں بارش کے حوالے سے پشاورکا نمبر نہیں آ پا رہا ۔مگر ہماری باری آئے اور خیر سے آئے ۔ ویسے ہمیں تو خوشگواری کے احساس کے لئے دو چھینٹے بھی کافی ہیں کہ پشاور کے خوبصورت چہرے پر پڑیں اور ہمیں ترو تازگی کا احساس ہو پائے ۔ دیکھیں اب یہ مراد کب پوری ہوتی ہے۔