شاعر جاں نثار اختر نے کہا تھا کہ ”یہ دوستی‘ یہ مراسم‘ یہ چاہتیں یہ خلوص .... کبھی کبھی مجھے سب کچھ عجیب لگتا ہے۔“ ایسی ہی ایک تعجب خیز جدوجہدبنام ’پاکستان ہندکووان تحریک‘ ہے جو معاشرے میں ’خاموش انقلاب (ارتعاش)‘ کے لئے سرگرم ہے۔ رواں ہفتے اِس تحریک کے نمائندہ وفد نے گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی سے ملاقات میں ہندکو زبان بولنے والوں کا مقدمہ نہایت ہی خوبصورتی اور شائستگی سے پیش کیا ہے جو نرم خو اور صلح جو اہل پشاور کا خاصا ہے کہ اِن کے اختلاف میں بھی مٹھاس ہوتی ہے۔ پاکستان ہندکووان تحریک کیا ہے؟ ایک جملے میں اِس کی وضاحت یہ ہو سکتی ہے کہ تاریخ و ثقافت اور لسانی و تہذیبی پہچان کے علاوہ معاشی و سماجی مفادات کے تحفظ کے لئے جب سیاسی جدوجہد کی ضرورت محسوس کی گئی تو اُسے ’پاکستان ہندکووان تحریک‘ کا نام دیا گیا ۔ غنیمت ہے کہ آج کی تاریخ میں ایسے ہم خیالوں پر مشتمل ایک سات رکنی وفد نے گورنر ہاو¿س پشاور میں حاجی غلام علی سے ملاقات کی اور اُن کی صحبت و میزبانی سے لطف اندوز ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ وفد کی قیادت تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر سقاف یاسر ایڈوکیٹ کر رہے تھے جبکہ اِس وفد کے دیگر اراکین میں صوبائی صدر خواجہ اکبر سیٹھی‘ احمر ضیا گیلانی‘ وقار لودھی‘ ڈاکٹر افتخار حسین‘ عبد البصیر اور علی رضا شامل تھے۔ اِس موقع پر گورنر خیبرپختونخوا کو ’پاکستان ہندکووان تحریک‘ کے قیام کی ضرورت (پس منظر) اور اِس کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا گیا کہ ہندکو بطور مادری زبان و ثقافت رکھنے والوں کے نام پر صرف سیاست ہی نہیں کی جا رہی بلکہ تحریک فلاحی سرگرمیاں بھی سرانجام دے رہی ہے اور اگرچہ ’ہندکووان تحریک‘ ابھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس باقاعدہ رجسٹرڈ نہیں ہوئی لیکن اِس تحریک نے اپنی خدمات کا دائرہ عمومی اور روایتی سیاست سے کہیں زیادہ بلند (مختلف) رکھا ہوا ہے‘ تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر سقاف یاسر ایڈوکیٹ نے میٹرو بس (بی آر ٹی) کے نام اور اِس میں کئے جانے والے اعلانات کے لئے منتخب زبانوں میں ہندکو زبان کو شامل نہ کرنے پر افسوس اور تعجب کا اظہار کیا کہ ہندکو زبان کو دانستہ طور پر نظرانداز کیا جا رہا ہے اور اِسے خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جا رہی جبکہ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ حکومت بلا تفریق ہندکو زبان اور ہندکو زبان بولنے والوں کے سماجی و معاشی مفادات کا تحفظ کرے۔ اِس موقع پر گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے کہا کہ اُن کی ساری زندگی پشاور میں گزری اور انہوں نے پشاور اور پشاور کے ہندکو زبان بولنے والوں سے پیار ہے۔“ ہندکووان تحریک کی جانب سے خیبرپختونخوا کے نگران سیٹ اپ میں ہندکووانوں کو شامل کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ عدنان جلیل اور ملک مہر الہٰی اعوان کو دوبارہ صوبائی کابینہ میں شامل کیا جائے۔ اِس موقع پر پشاور کے مسائل کے حوالے سے بھی انتہائی خوشگوار ماحول میں تبادلہ¿ خیال ہوا اور تحریک کی جانب سے اُٹھائے گئے بہت سے نکات سے گورنر حاجی غلام علی نے اتفاق بھی کیا۔ تحریک کے صوبائی صدر اکبر سیٹھی نے بات چیت میں گرانقدر نکات کا اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ”پشاور ایک تاریخی شہر ہے جہاں کے باغات اور پھول مشہور ہوا کرتے تھے اور اِس شہر کے رہنے والے اپنی خاص ثقافت‘ رہن سہن اور بودوباش رکھتے تھے ، ہندکووان تحریک درحقیقت ایک ا جدوجہد بھی ہے جو ہندکووانوں کو اُن کے تشخص اور زبان سے ٹوٹے یا کمزور ہوئے رشتے کو جوڑنا چاہتی ہے جسے ملنے والی پذیرائی اِس بات کی گواہ ہے کہ تحریک اپنی اِس مخلصانہ کوششوں میں بڑی حد تک کامیاب ہوئی ہے اور آج ہندکووانوں کے حقوق سے متعلق شعور اُجاگر ہوا ہے اُور لوگ اِس حوالے سے بات چیت کرتے ہیں اُور ہندکو زبان و ثقافت پر فخر محسوس کرتے ہیں جو انقلابی سماجی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔“’پاکستان ہندکووان تحریک‘ کے قیام کی ضرورت ’دردمند مو¿قف‘ اور ’بے لوث ہمدردانہ جذبات‘ کا نتیجہ تھا جس کے لئے ڈاکٹر سقاف یاسر ایڈوکیٹ نے اپنے علمی‘ عملی اور مالی وسائل کا فراخدلانہ استعمال کرتے ہوئے جس جرا¿ت کے ساتھ ہندکووانوں کی شناخت اور اُن کے حقوق کے تحفظ کے لئے آواز اُٹھائی ہے اور بیک وقت کئی ایک محاذوں پر ڈٹ کر کوششیں کر رہے ہیں وہ واقعی لائق تحسین ہے۔