وہ پشاور کے دبنگ مجسٹریٹ سرفراز خان کی طرح فرسٹ کلا س مجسٹریٹ تھا۔ قانون کے معا ملے میں کسی سے رو رعایت نہیں کر تا تھا مگر قانون کو حر کت میں لا نے سے پہلے دھیمے اور نر م وملا ئم لہجے میں لو گوں کو قانون پر ایک تقریر کرتا اور سمجھا تا تھا کہ دیکھو قانون کا راستہ ایسا ہے‘ قانون کے ہاتھ ایسے ہیں‘ قانون کی بینائی کمزور ہے‘ قانون چہروں کو نہیں پہچانتا‘ نا موں کو نہیں پڑھتا ‘قانون کے کا ن بہرے ہیں‘ قانون ماں باپ، عزیز ، دوست ،خان ، چوہدری اور نواب کی بات نہیں سنتا‘ اس کے پیشے کے ساتھ وابستہ دوست اور احباب ہمیشہ کہتے تھے کہ قانون پر لیکچر جھا ڑ کر اپنا وقت ضا ئع مت کرو سیدھا سیدھا ڈنڈا چلاﺅ ۔جواب میں وہ کہتا تھا میری ملا زمت ایک استاد کی حیثیت سے شروع ہوئی تھی میں کمرہ جما عت میں بھی ڈنڈے کا استعمال کرتا تھا مگر سب کو سمجھا نے کے بعد ڈنڈا ہاتھ میں لیتا تھا ۔یہ میری تربیت کا حصہ اور میری فطرت ثانیہ بن چکی ہے ۔میر قوت خان مرحوم کی کہا نی، 70سال پہلے کے پہا ڑی گاﺅں میں بچپن گزار کر درخت کے سائے میں الف با پڑھنے سے تعلیمی سفر کا آغاز کرکے ایم اے انگلش کے لئے پشاور کے پرو فیسرٹھا کر دا س کی کلا س میں ملٹن اور ورڈز ورتھ کی نظمیں ترنم سے پڑھنے والے اعلیٰ تعلیم یا فتہ استاد اور کلا س ون مجسٹریٹ کی کہانی ہے ۔اس کہانی میں اونچ نیچ بہت ہیں ،اُتار چڑھاﺅ کی حد نہیں، تجسس کا حساب نہیں اور کہا نی انجام کو پہنچتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے خواب تھا جو دیکھا ، جو سنا افسانہ تھا میر قوت خان مر حوم 12جنوری 1945کو سابق ریا ست چترال کے خوب صورت لیکن دشوار گذار گاﺅں پر کو سب میں شگو نے قبیلہ کے متمول کا شتکار غزینہ خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ جب انکی عمر 8سال ہوئی تو ریا ست کا پرانا نظام ختم ہوا ، مشاورتی کونسل کے انتخا بات ہوئے سکول کھو لنے اور بچوں کو پڑھا نے کے لئے ترغیبات کا اعلان ہوا۔ گاوئں کے معزز قبیلے یخشے کی مخیر شخصیت شکور رفیع استاد نے اپنی جا گیر کے اندر دو کمرے تعمیر کر کے سکول کھولا تو مشاورتی کونسل نے استاد کے لئے تنخوا ہ اور سکول کےلئے سرکاری سند کی منظوری دیدی ۔لیکن کمرے تعمیر ہونے میں وقت لگتا تھا استاد شکور رفیع صاحب نے درخت کے سایے میں میر قوت خان کی عمر کے بچوں کو جمع کرکے پڑھا نا شروع کیا۔ دو ماہ بعد مشاورتی کونسل کی طرف بلیک بورڈ ، چاک ، رجسٹر اور کرسی جیسی بنیا دی ضروریات مل گئیں۔ اگلے سال کمرے بھی تیار ہوئے اور امتحا ن بھی لیا گیا ۔گاﺅں سے پرائمری پا س کر کے مڈل سکول مستوج میں داخل ہوئے۔ آٹھویں کے امتحا ن میں امتیا زی نمبر آئے تو وظیفہ مل گیا اور سٹیٹ ہا ئی سکول چترال سے آپ نے میٹرک کا امتحان پا س کیا۔ اس وقت کے وزیر تعلیم نے میٹرک کی کلاس میں آکر دور دراز دیہات سے آکر ہاسٹل میںرہنے والے طلباءسے کہا تھا کہ تم نے مشقت سے تعلیم حاصل کی ہے امتحا ن کا نتیجہ آئے اور جس کے اچھے نمبر آئینگے میں ان کو استاد مقرر کر کے دیہات کے سکولوں میں بھیجوں گا ، نتیجہ آیا تو وزیر تعلیم نے گھر سے بلا کر آپ کو استاد مقرر کیا اور سور لاسپور کے نئے پرائمری سکول میں بھیجا۔ یہاں وہی صورت حال تھی جو 10سال پہلے ان کے اپنے سکول کی تھی کمرے ابھی تعمیر نہیں ہوئے تھے گرمیوں میں درخت کے نیچے اور سردیوں میں کسی کا مکان خا لی کر کے وہاں سکول لگا یا جاتا تھا۔ ہماری کلا س میں کبھی محمد یوسف کو اور کبھی محمد رسول کو ما نیٹر مقرر کرتے ، درست تلفظ اور خو ش خط لکھا ئی سکھا تے ان میں جو کمزور ی کرتا اس کو ندی کے یخ بستہ پا نی میں کھڑا کر کے سزا دیتے ۔ میر قوت خان استاد میرے والد مولانا محمد اشرف کا دوست بنا تو معلوم ہوا کہ وہ کتا بوں کا عاشق ہے۔ 1964اور 1965میں وہ تاریخ چترال کی جلد لیکر آتا تھا۔ بانگ درا بھی لاتا تھا ، مخزن ِ اخلا ق اور بہشتی زیور ، پڑھنے کے لئے لے جا تا تھا ۔ڈاک میں ایشیاء،آئین ، کوثر اور ترجمان القرآن کے پر چے آتے تو ڈاک خانے سے اٹھا کر لے آتا ۔بڑے بھی پڑھتے مجھے بھی پڑھنے کی تر غیب دیتے پرائیویٹ امتحا نات کی تیا ری کےلئے اس نے چترال یا پشاور کے مر کزی مقام پر نو کری کی تلا ش شروع کردی اور ضلعی انتظا میہ میں اس کو سروس مل گئی مگر اس کے من کا استاد سدا استاد ہی رہا ، اس کے علمی سفر کی روداد بھی دلچسپ ہے ۔پرائمری سکول میں استاد شکور رفیع نے دینیات اور خطبات کے مطا لعے سے اس کو پڑھنے کی دعوت دی۔ یہ عادت ہائی سکول میں اور پختہ ہوگئی جہاں غلا م مصطفی استاد نے ان کو قرآن فہمی کے بنیا دی اصول ، الجہاد فی ا لاسلام ، رسائل و مسائل وغیرہ پڑھنے کےلئے دیدیے ۔پھر وہ اسلا می لٹریچر کا شیدائی ہو گیا اس نے بڑی محنت سے ایف اے اور بی اے پا س کرنے کے بعد ایم اے انگلش کی تیا ری شروع کی۔ استاد میر قوت خا ن مر حوم کو گاﺅں کے لو گ تحصیلدار کے نا م سے جا نتے تھے۔ ان کا قبیلہ شگو نے چترال کے زمین زاد یعنی بومکی یا (Aborigins) کے زمرے میں آتا ہے ، آپ نے گاﺅں کی فلا ح و بہبود اور قبیلے کی معا شی ترقی کےلئے نو جوانوں کی اچھی سر پرستی کی ۔عمر کے آخری حصے میں لوئیر چترال کے گاوں ڈوم شو غور میں سکو نت پذیر ہوئے تھے ۔ 16اگست 2023کو 78سال کی عمر میں وفات پائی اور اپنی زر خرید قبر ستان میں مد فون ہوئے۔ انہوں نے اپنی اولاد کی علمی اوراخلا قی تر بیت میں کوئی کسر نہیں رہنے دی اور ساری اولاد دین و دنیا کے لحاظ سے بہترین مقام پر ہے ۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی