غذائی خودکفالت کے حصول کے لئے زرعی شعبے کی ترقی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ زراعت کو منافع بخش بنانے کے لئے جہاں زرعی پیداواری ضروریات کی قیمتوں میں کم کرنا ضروری ہے وہیں زرخیز زرعی اراضی کا تحفظ بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ اِس مقصد کے لئے مالی سال 2009-10ءکے دوران خیبرپختونخوا کے چنیدہ اضلاع میں ایک مرحلہ وار حکمت عملی کا اطلاق کیاگیا جس کا بنیادی مقصد تیزی سے سکڑتی ہوئی زرعی اراضی کو ہاو¿سنگ سوسائٹی سے بچانا تھا لیکن بارہ سال گزرنے کے باوجود بھی اِس حکمت عملی سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکے اور نہ ہی اِس حکمت عملی کو چند اضلاع سے پورے صوبے میں پھیلایا جا سکا ۔ مالی سال دوہزارنو دس میں ”پروانشیل لینڈ یوز پلان (PLUP)“ نامی ایک حکمت عملی کا اعلان کیا گیا اور اِس مقصد کے لئے صوبائی بجٹ میں 9 کروڑ 20 لاکھ روپے مختص کرتے ہوئے پہلے مرحلے میں پانچ اضلاع کا انتخاب کیا گیا جن میں زرعی اراضی کا تحفظ کرنا تھا لیکن بات کاغذئی کاروائیوں سے زیادہ آگے نہیں بڑھ سکی۔ دس بارہ برس پہلے اگر اِس پر عمل درآمد ہو جاتا تو آج پشاور میں غذائی خودکفالت اور زرعی پیداوار کی صورتحال قطعی مختلف ہوتی لیکن مذکورہ رپورٹ کو خاطرخواہ توجہ نہ دینے کی وجہ سے زرعی اراضی میںتیزی سے کمی واقع ہوتی گئی۔ بات جہاں سے چلی تھی وہیں رکی ہوئی ہے۔ خیبرپختونخوا کے ہر ضلع میں آبادی بڑھ رہی ہے۔ دانشمندی تو اِس میں ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پورا کرنے اور غذائی مہنگائی کو دور کرنے کے لئے حکومتی وسائل اور توجہ زرعی ترقی پر مرکوز ہو لیکن ایسا نہیں ہو رہا اور اکتوبر دوہزاربائیس میں جب مذکورہ حکمت عملی کو ضم شدہ قبائلی اضلاع تک وسعت دینے کے لئے ایک اور پی سی ون تیار کیا گیا۔ پرانی حکمت عملی کی نئی منظوری دیدی گئی جس کے لئے 66 کروڑ29 لاکھ روپے مختص کئے گئے اور اس مرتبہ بیس سال کے لئے حکمت عملی (ماسٹر پلان) تیار کرنے کی ذمہ داری اُٹھائی گئی ہے جس کے لئے مذکورہ پانچ اضلاع بشمول پشاور سے متعلق پلان مکمل بھی کر لیا گیا ہے جبکہ آٹھ ضم شدہ قبائلی اضلاع کے لئے مشیروں (کنسلٹنٹس) کی خدمات حاصل کرلی گئی ہیں۔ محکمہ جاتی سطح پر دیکھا جائے تو بائیس بندوبستی اضلاع میں مذکورہ منصوبے پر کام جاری ہے جو جون دوہزارچوبیس میں مکمل ہوگا لیکن لمحہ¿ فکریہ یہ ہے کہ تیرہ سال پہلے کئے گئے سروے میں جو اراضی زیرکاشت تھی اس میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔ اِس سلسلے میں صوبائی نگران حکومت کیا حکمت عملی اور لائحہ عمل بناتی ہے یا اِس ’ضروری کام‘ کو آنے والی عوام منتخب سیاسی حکومت کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔جہاں تک غذائی خود کفالت کا تعلق ہے تو اس کو اولین ترجیح قرار دینا اب وقت کا تقاضا ہے ، ایسے حالات میں کہ جب ایک طرف یوکرین اور روس جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر غذائی بحران نے سراٹھایا ہوا ہے ،ممالک نے غذائی خود کفالت کی پالیسیاں مرتب کرکے اس پر تیزی سے عملدرآمد بھی شروع کیا ہوا ہے کیونکہ غذائی خود کفالت کا ہدف راتوں رات حاصل ہونے والا نہیں بلکہ یہ ایک صبر آزما عمل ہے اور طویل المیعاد منصوبہ ہوتا ہے۔ اس لئے اگر ہمیں غذائی خود کفالت کی طرف بڑھنا ہے تو اس کیلئے شروعات فی الفور کرنا ہوں گی۔اب بھی دیکھا جائے تو ہم نے کافی دیر کر دی ہے اور مذکورہ بالا حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہمیں اب اپنے طرز عمل پر غور کرنا ہوگا۔