کالا پانی‘تاریخ کے جھروکے سے 

خلیج بنگال کے جزائر نکوبار اور انڈیمان کو عرف عام میں کالا پانی کہا جاتا ہے ان جزائر کی مشہوری اس وقت ہوئی جب فرنگیوں نے ان میں جیل خانہ قائم کیا اور وہاں سنگین فوجداری جرائم میں ملوث قیدیوں کے ساتھ ساتھ آزادی ہند کی تحریک سے وابستہ سیاسی لیڈروں کو وہاں قائم کی گئی جیل میں رکھنا شروع کر دیا ان جزائر کا محل وقوع ایسا تھا کہ وہاں سے فرار ہونا ناممکن تھا وہاں مچھروں کی بہتات تھی اور جیل میں مقید کئی افراد ملیریا سے ہلاک ہو جاتے جن میں ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوتے جن کو پھر انہیں جزائر میں ان کے عقائد کے مطابق جلا دیاجاتا یا دفن کر دیا جاتا یہ سلسلہ تقسیم ہند تک چلتا رہا‘ 1857 ءکی جنگ آزادی کے بعد فرنگیوں نے تحریک آزادی سے وابستہ آزادی کے متوالوں کو گرفتار کر کے ان جزائر میں واقع جیل میں بھجوانا شروع کیا تھا یہ جیل جن جزائر میں واقع تھی اس کا محل وقوع ایسا تھا کہ جہاں سے فرار ہونا ناممکن تھا عام تاثر یہ تھاکہ جو ملزم ایک مرتبہ کالا پانی بھیجا گیا پھر وہ زندہ نہ مڑا وہ وہاں ہی مر گیا ‘آزادی ہند کے بعد جب بھارت میں حکمران کانگریس پارٹی نے عام معافی کا اعلان کیا تو اس وقت خوش قسمتی سے کالا پانی کے قید خانے میں جو لوگ زندہ تھے وہ جب رہا ہو کر اپنے اپنے گھروں میں آئے تو انہوں نے کالا پانی کے بارے میں روداد بیان کی اور پھر اس کی بنیاد پر کئی کتابیں لکھی گئیں اور کئی فلمیں بھی تخلیق کی گئیں۔ اب آتے ہیں اپنے ملکی حالات کی جانب ‘گزشتہ 6 ماہ کے اندر ہزاروں کی تعداد میںپاکستانی ملک چھوڑ کر باہر چلے گئے ہیں‘ اگر اسی رفتار سے ہنرمند لوگ معاش کی تلاش میں ملک چھوڑتے رہے تو یہ حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے ‘ جہاں بے روزگاری ڈیرے ڈال لے تو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ہنرمندوں کو جہاں بھی رزق کمانے کے ذرائع دستیاب ہوتے ہیں وہ وہاں کا رخ کرتے ہیں‘ وزیر اعظم کی اس بات سے بھی البتہ اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ باہر جانا انہونی نہیں بہتر روزگار کے لئے بیرون ملک آباد ہونا مثبت چیز ہے۔ملک آج کل جس معاشی بحران کا شکار ہے اس کو مد نظر رکھ کر اگر دیکھا جائے تو میاں نواز شریف کے اس بیان سے شاید ہی کوئی اختلاف کرے کہ اب ملک چلانا کسی کے لئے بھی آسان نہیں ہوگا کیا اس تلخ حقیقت سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ ملک چلانے کے واسطے 80ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔جبکہ وطن عزیزپہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے ۔