زیادہ پرانی بات نہیں جب ’پشاور شہر‘ کی ایک پہچان یہاں دن کے مختلف اوقات میں پکائی جانے والی مختلف قسم کی روٹیاں (نان) ملتے تھے‘ جن کی الگ الگ طلب (بھوک) ہوتی تھی آج صبح کے وقت روغنی‘ باقرخانی اور پراٹھہ ملتا ہے جبکہ دوپہر کے وقت آلو والا پراٹھا اور رات کو ایک ہی قسم کی خمیری روٹی ملتی ہے۔ چند برس پہلے تک ایسا نہیں تھا بلکہ پانچ قسم کی روٹیاں عام ملا کرتی تھیں۔ ان میں لمبی روٹی جسے عرف عام میں ’لمی روٹی‘ کہتے تھے اور نانبائی سے کہہ کر لگوائی جاتی تھیں۔ دوسری قسم گول چوکے والی روٹی ہوتی تھی‘ اِس روٹی کا زیادہ تر استعمال بزرگ کرتے یا وہ گھرانے جہاں روٹی کو زیادہ دیر خستہ رکھ کر شام کی چائے کے ساتھ کھانے کا رواج ہوتا تھا۔ ایک اور طبقہ بھی اِس قسم کی روٹی کو پسند کرتا تھا جسے روٹی کی چوری بنانا ہوتی تھی۔ یہ ایک انتہائی سادہ قسم کی غذا ہوتی تھی جس میں روٹی کے چھوٹے بڑے نوالے بنا کر اُنہیں ’فرائی پین (توے)‘ پر گرم کئے ہوئے دیسی گھی اور چینی کے ساتھ اِس حد تک پکایا جاتا تھا کہ روٹی گھی اور چینی کے ساتھ گھل کر نرم ہو جائے اور چینی کا قوام بن جائے اور یہ دانے دار شکل سے محلول کی شکل میں ہر نوالے کے ساتھ چپک جائے لیکن چینی کی مقدار اِس قدر کم رکھی جاتی کہ یہ انگلیوں سے کھانے پر ہاتھوں میں چپچپاہٹ پیدا نہ کرے۔ گول چوکے والی روٹی کا تیسرا استعمال سری پائے کا قلا (قلاع) بنانے کےلئے بھی کیا جاتا تھا۔ روٹیوں کو چار یا آٹھ ٹکڑوں میں کاٹ کر اُنہیں ایک پتیلے میں ڈال دیا جاتا۔ اندرون شہر کے رہنے والوں کی اکثریت نکے یا بیگے نامی پائے فروشوں کے پاس یہ دیگچی (پتیلا) لے کر جاتی جو دیکھتے ہی دیکھتے اِسے سری پائے کے گاڑھے محلول سے بھر دیتے‘ اوپر بہت سارا گوشت اور مغزیاں (ہڈیوں کا گودا) ڈال کر ایک ایسا کھانا (ڈش) تیار کر دیتے کہ کھانا والا کھاتا ہی چلا جائے اور سیر نہ ہو۔ ذہن نشین رہے کہ گائے کے پائے (بڑے پائیوں) کے لئے جن گودے بھری ہڈیوں (Bone Broth) کا استعمال کیا جاتا وہ ہڈیوں کو مضبوط بنانے کے لئے انتہائی اہم خوراک ہے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ پائے بمعہ مغزی کھانے سے وزن بڑھتا ہے لیکن ’میڈیکل نیوز ٹوڈے‘ نامی ویب سائٹ پر موجود ایک طبی تحقیق کے مطابق ’ہڈیوں اور اِن کے گودے یا ہڈیوں سے چپکے ہوئے گوشت کا عرق (پائے) کھانے سے وزن کم ہوتا ہے۔ نظام ہضم درست ہوتا ہے۔ عمر کے ساتھ کمزور ہوتے ہڈیوں کے جوڑ مضبوط ہوتے ہیں لیکن یہاں بات ہڈیوں کی ہو رہی صرف گائے کی ہڈیوں کی نہیں۔ مچھلی‘ مرغی یا بکری وغیرہ سمیت تمام حلال جانوروں کی ہڈیوں میں ایک جیسی طبی خصوصیات پائی جاتی ہیں تو کہنے کا مطلب تھا کہ ایک وقت میں پشاور کا بودوباش بہت ہی خالص اور بہت ہی غذائیت بھرا ہوا کرتا تھا جس میں روٹی (نان) کا کلیدی کردار ہوا کرتا تھا۔بات ہو رہی ہے نان کی۔ نان کی پہلی قسم لمی روٹی‘ دوسری قسم گول چوکے والی روٹی‘ تیسری قسم گول ناخنوں والی روٹی‘ چوتھی قسم قلچہ اور پانچویں قسم لواش (لاواش) کہلاتی تھی۔ ’لواش‘ اُس روٹی کو کہتے جو گندم کے آٹے کو گوند کر بنائے گئے (موجودہ وزن کے لحاظ سے تین یا چار سو گرام) کے پیڑے کو پھیلا کر بنائی جاتی تھی۔ لواش ایک بہت ہی لمبے سائز کی روٹی ہوتی تھی جس کی موٹائی کم سے کم رکھنا نانبائی کی مہارت و تجربے پر منحصر ہوتا تھا جو نانبائی سب سے پتلی روٹی (لواش) بنا سکے اُسی کے پاس جایا جاتا تھا۔ لواش کی دوسری قسم میں اِس پر گھی‘ مکھن‘ سفید تل‘ کلونجی کے دانے اور چینی کی ہلکی سی تہہ بھی لگا دی جاتی تھی جس سے اِس کا ذائقہ اور بھی بہتر ہو جاتا تھا۔ تاریخی اعتبار سے پشاور کی خاص روٹی ’لواش‘ کے موجد یہاں کے ’یہودی‘ تھے۔ یہ بات بہت ہی کم پشاوریوں کو یاد ہو گی کہ گھنٹہ گھر کے نیچے یہودی خواتین ابلے ہوئے انڈے ٹوکریوں میں رکھ کر فروخت کیا کرتی تھیں ‘ اُن کی رہائشگاہیں محلہ خویشگی میں سیٹھی حویلی سے متصل بساط والی گلی میں ہوا کرتی تھیں لیکن قیام پاکستان کے بعد اور اُس دوران ہندوو¿ں نے پشاور سے بھارت و افغانستان ‘ پھر کچھ نے اسرائیل نقل مکانی کر لی اور اُن کی وہ نسلیں جن کے دلوں میں پشاور آباد تھا آج شاید زندہ بھی نہ ہوں ‘ تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک وقت میں پشاور کس قدر خوبصورت ہوا کرتا تھا کہ اِس میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل کر رہتے تھے‘ افسوس کہ وہ صاف ستھرے محلے‘ وہ جھکی ہوئی نظروں سے ایک دوسرے کا ادب (حفظ مراتب)‘ وہ بزرگوں کا احترام‘ وہ کم عمر ہم عصروں سے شفقت بھرا سلوک‘ علیک سلیک اور ایک دوسرے کے غمگسار نہیں رہے!پشاور کی روٹی کی طرح یہاں کے تندور بھی بہت خاص ہوا کرتے تھے۔ نانبائیوں کی اکثریت ایک جیسے اُن مشاغل میں مصروف رہتی جو اُن کی پیشہ ورانہ کام کاج (تندور چلانے جیسی سماجی خدمت) میں حائل نہ ہوں اور یہ شوق تیتر‘ بٹیر اور چکور (کونک) پالنے کا تھا۔ تیتر کے بارے میں آج بھی اہل پشاور کا یقین ہے کہ یہ ’سبحان تیری قدرت‘ کہتا ہے۔ بٹیر خوش بختی لاتا ہے اور کونک جادو کا توڑ ہے ‘ یہی وجہ ہے کہ آج بھی پشاور میں کونک کی اوسط قیمت پانچ ہزار روپے سے شروع ہوتی ہے اور کابل (افغانستان) سے آئے ہوئے کونک تو پچاس ہزار روپے میں بھی نہیں ملتا۔ تندروں پر کونک و تیتر کے خوبصورت پنجرے اور بٹیر (بٹیروں) کے لئے تھیلیاں لٹکی ہوتی تھیں جنہیں مقامی زبان میں ’خلتہ‘ کہا جاتا ہے آج بھی یہ خلتے اِکا دُکا دکھائی دیں تو بہت دیر اُن کو دیکھنے والے اپنی مصروفیت بھول جاتے ہیں!تندروں سے روٹی کے علاو¿ہ سیخ میں پروئے ہوئے گول بینگنوں کو سرخ کرنے کا کام بھی لیا جاتا اور یہ ایک معمول ہوتا تھا جس کے لئے تندوروں میں الگ سے لوہے کے بنے ہوئے چھکے (پنجرے) رکھے ہوئے تھے‘ یہی چھکے میٹھی روٹی بنانے کے بھی کام آتے تھے انہیں لمبی سیخ کی مدد سے تندور کے اندر ایک کونے پر بینگن یا مکئی کی نمکین یا میٹھی روٹی کا خمیر ڈال کر رکھ دیا جاتا تھا۔ تب گیس ایندھن کا عام ذریعہ نہیں ہوتی تھی زمینی تندور کے وسط میں لکڑی ڈال کر جلائی جاتی تھیں جن کے کونوں پر تیز آنچ میں بینگن سرخ ہو کر اندر تک پک جاتا اور اِس کا باہری حصہ (چھلکا) جل کر اس کے نرم رس بھرے گودے سے چپک جاتا۔ جب بینگن کے اندر موجود قدرتی پانی (نمی) خشک ہوتی اور یہ سکڑنے لگتا تو اِسے نکال کر جلے ہوئے حصے چھانٹ لئے جاتے اور بنا ملائی والے دہی میں پھینٹ کر شامل کر لیا جاتا۔ اِس ڈش کو پرتھا (بھرتھا) کہتے اور یہ کھانے کے ساتھ گھی و نمک کے ترکے کے ساتھ ایک اضافی خوش ذائقہ (کھٹی میٹھی) ترشی مائل چٹنی سی ہوتی تھی جس سے ہاضمہ بہتر ہوتا اور گول بینگن کی غذائیت سے بھلا انکار ممکن ہے۔ پشاور کے ذائقوں میں روٹی کی الگ خصوصیات اور طریقوں کے بارے میں کسی دوسرے مضمون میں تفصیل سے لکھنے کی کوشش کی جائے گی کیونکہ ’پیشوری روٹی‘ کے صرف رنگ روپ ہی نہیں بلکہ اِس کے ذائقے بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔ آج کی روٹی ربڑ کی طرح لچکدار اور ٹھنڈا ہونے پر کرخت ہو جاتی ہے جسے صرف پانی کا چھینٹا اور ’مائیکرو ویو اُوون‘ ہی سیدھا کر سکتا ہے۔ کوئی مانے کے نہ مانے گندم وہی ہے لیکن گندم کے آٹے کا معیار وہ نہیں رہا جبکہ ہاتھوں سے گوندے ہوئے آٹے اور مشین سے گوندھے ہوئے آٹے کے درمیان فرق بھی صرف وہی محسوس کر سکتے ہیں جو پشاور کے ساتھ ساتھ بوڑھے ہو گئے ہیں لیکن پشاور کو جوان و توانا دیکھنا چاہتے ہیں!
جو دل کی آنکھ سے دیکھا پشاور شہر کا منظر
نشیلی شام کا منظر‘ سہانی سحر کا منظر
رگ و پے میں سرایت کر گیا‘ ہر پہر کا منظر
چراغاں ہی چراغاں ہے دیار ِبحر کا منظر
بھلا کیا چھوڑ کر جائیں‘ بھلا کیا ساتھ لے جائیں
چلو باندھیں پشاور کو‘ اُجالا ساتھ لے جائیں