چیئر لفٹ

ہزارہ ڈویژن کے پہاڑی مقام پاشتو آلائی میں چیئر لفٹ خراب ہونے کے بعد چند اہم معلومات اخبارات میں شائع ہوئی ہیںان میں سے قابل ذکرباتیں چار ہیں۔پہلی بات یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں پہاڑی علاقوں کے اندر بچوں کو ان کے اپنے گاﺅں میں سکول کی سہولت نہیںدی گئی۔دوسری بات یہ ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہزارہ ڈویژن میں ایسے علاقے موجود ہیں جو پل کی سہولت سے محروم ہیں تیسری بات یہ ہے کہ حکومت نے فیلڈ کے آفیسروںکو بنیادی سہولیات کی فراہمی سے متعلق اختیارات اور وسائل دینے کا قدیم قانون ختم کردیا ہے اور چوتھی بات یہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کا اختیارمنتخب نمائندوں کے ہاتھوں میں جانے کے بعد دور دراز کے دیہات میں بنیادی ڈھانچے کی سکیموں کو سالانہ ترقیاتی پروگرام میں کبھی جگہ نہیں دی گئی۔پاشتو آلائی ،بٹگرام اور کوہستان میں 43مقامات پر سکول،ہسپتال اور بازار جانے کے لئے بوڑھے،بچے،خواتین ،بیمار اور معذور افراد چیئر لفٹ استعمال کرتے ہیں اور یہ ذریعہ نقل وحمل ہمیں اٹھارویں صدی کی یاد دلاتا ہے جب گلگت بلتستان ،چترال،کوہستان اور ملحقہ علاقوں میں بید کی شاخوں سے رسیاں بناکر 200فٹ یا 300فٹ لمبے پل باندھے جاتے تھے یہ تین رسیاں ہوتی تھیں ایک پر پاﺅں رکھا جاتا تھا دورسیوں کوہاتھوں سے مضبوط پکڑ کرتیسری رسی پرچھوٹے چھوٹے قدم بدلے جاتے تھے یہ پل عموماً500فٹ یا600فٹ کی بلندی پرہوتے تھے نیچے ندی بہتی تھی یا دریا بہتا تھا کتابوں میں اُن پلوں کی تصویریںملتی ہیں۔انگریزوں نے ان کی جگہ سڑک اور پُل تعمیرکرکے ان کو ختم کیا۔کوہستان اُس وقت علاقہ غیر تھا اس کو”یاغستان“ باغیوںکادیس کہاجاتا تھا۔اُس زمانے میںیہ علاقے ترقی سے محروم رہے قیام پاکستان کے بعد فیلڈ میں کام کرنے والے آفیسرو ں کے سابقہ اختیارات بحال رکھے گئے تھے جن علاقو ں میں امن وامان کا مسئلہ نہیں تھا وہاںفیلڈ آفیسروں نے انسانی سہولیات کی سکیمیں متعارف کرائیں کوہستان میں حالات ایسے نہیں تھے پھر سالانہ ترقیاتی پروگرام منتخب نمائندوں کو دیا گیا ضلعی ترقیاتی مشاورتی کمیٹی کا اختیار بھی ایم پی اے کو دیا گیا اس کے نتیجے میں عوامی ضرورت اور انسانی سہولت کی سکیموں پرسرکاری فنڈ خرچ ہونے کا سلسلہ بند ہوا چنانچہ لوگ سکول،ہسپتال،سڑک اور پُل جیسی سہولیات سے اٹھارویں صدی کی طرح محروم ہوگئے۔اس واقعہ میں دو بڑے اسباق پوشیدہ ہیں پہلا سبق یہ ہے کہ ترقیاتی سکیموں کی منصوبہ بندی اور وسائل کی فراہمی کا اختیارفیلڈ میں کام کرنےوالے آفیسرز کو دیا جائے منتخب نمائندوں کوترقیاتی کاموں سے یکسربے دخل کیا جائے ان کاکام قانون سازی تک محدود کیا جائے۔جب فیلڈ میں کام کرنے والے آفیسرز کواختیارات مل جائینگے توعوامی اہمیت اور بنیادی انسانی ضرورت سے تعلق رکھنے والے مسائل حل ہوجائینگے۔دوسرا سبق یہ ہے کہ واقعہ رونما ہونے کے بعد حکومت کوتمام دوسرے کام چھوڑ کر بٹگرام ،آلائی ، کوہستان اور ملحقہ علاقوں میں سروے کرکے سڑکوں ،پلوں،سکولوں اور ہسپتالوں کی جامع منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔واقعہ رونما ہونے سے لیکر ان سطور کی اشاعت تک ایساکوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ملا جس کی روشنی میں اصلاح احوال کی اُمید کی جاسکتی ہو،پاشتو آلائی کے واقعے نے ایک بڑی حقیقت سے ہم سب کو آشنا کردیا ہے وہ یہ بات ہے کہ ورکشاپ کا مشہور کردار چھوٹو کاریگری اور مہارت میں بے مثال ہوتا ہے وہ نقشہ نہیں بناسکتا۔بریفینگ اور پریزنٹیشن بھی نہیں دے سکتا مگر اُس کاکام لکھنے اور بولنے والوں سے بہتر ہوتا ہے۔ہمارے دیہات میں پاشتوآلائی کے صاحب خان،محمد الیاس اور علی سواتی کی طرح ہزاروں کاریگر موجود ہیں یہ ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں،جس طرح درہ آدم خیل کے کاریگروں نے اسلحہ سازی میں دنیا بھرکے انجینئروں سے اپنی مہارت کالوہا منوایا،کانی گروم کے کاریگروں نے دنیابھر سے داد حاصل کی اس طرح پاشتو آلائی کے کاریگروں نے بھی اپنی مہارت کالوہا منوایا ہماری حکومت کے اعلیٰ حکام کومقامی کاریگروں کی مہارتوں سے ترقیاتی سکیموں میں بھی استفادہ کرنا چاہیے۔