خیبرپختونخوا کا ضلع ’لوئر دیر‘ جنت نظیر سرسبز و شاداب وادیوں کا مجموعہ ہے جس کا ’ثمر باغ‘ علاقہ کسی شہر کا منظر پیش کرتا ہے جہاں اب خوشحالی کے ڈیرے ہیں اور ایک وقت تھا جب ثمرباغ میں بیشتر مکانات کچے (مٹی کے بنے ہوئے) ہوتے تھے لیکن آج ثمرباغ کو کسی بلند مقام سے دیکھنے پر لاتعداد چھوٹے بڑے پکے مکانات کی اونچی نیچی قطاروں نے پہاڑی چوٹیوں کو ڈھانپ لیا ہے عموماً اِس طرح کی آباد کاری سے درختوں کا بڑے پیمانے پر ’قتل عام‘ ہوتا ہے لیکن ثمر باغ میں یہ قتل عام زیادہ نہیں ہوا اور گھروں کے آنگن اور گلی کوچوں سے گزرتے ہوئے کہیں کہیں درختوں سے بھی ملاقات ہو جاتی ہے جو اگرچہ خود کو اجنبی سمجھ رہے اور شاید چند برس کا مہمان بھی کیونکہ اُن کے آس پاس (گردوپیش) میں تعمیراتی ترقی سماجی ترجیحات میں تبدیلی کی عکاس ہے۔ کاش ہم قدرت کے ساتھ جینے کا ہنر سیکھ لیں تو اِس قسم کی ماحول دوستی کے فائدے ہی فائدے ہیں اُور نقصان کوئی نہیں ہے۔ ثمرباغ کی وادی میں چناڑ جسے Chinese Banyan بھی کہا جاتا ہے کے درخت کثرت سے دیکھنے کو ملتے تھے اور اگرچہ اِن کی اب بھی تعداد دیگر درختوں کے مقابلے زیادہ ہے لیکن اِن کے جھنڈ یہ ماضی کی طرح گنجان نہیں رہے۔ یہ کنیڈین میپل اور کشمیری چنار سے مختلف ہے لیکن شاید اِن کی نسل ایک ہی ہے اور اِسی وجہ سے اِن میں بڑی مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔ ثمر باغ میں استقبال کرنے والا دوسرا نمایاں درخت ’چیڑ (پائن)‘ کا ہے جسے Pinus Roxburghii کہا جاتا ہے اور پائن نسل کے درختوں کی قسم ہے۔ اِس درخت کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے آپ خود کو قائم رکھ سکتا ہے اور موسمیاتی اثرات کا مقابلہ بھی دیگر درختوں کے مقابلے زیادہ بہتری سے کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِس سے حاصل ہونے والے گودے سے چہرے پر لگائی جانے والی کریم بنائی جاتی ہے جس میں سنگاپور کی کمپنی ’ٹری ہٹ (Tree Hut)‘ کی مصنوعات دنیا بھر میں بہت مقبول ہیں۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ سنگاپور جس کا کل رقبہ 719 مربع کلومیٹر ہے اُور پاکستان جس کا کل رقبہ 7 لاکھ 96 ہزار 95 مربع کلومیٹر ہے اور پاکستان میں چیئر کے درخت بھی سنگا پور سے زیادہ ہیں لیکن یہاں درختوں اور دیگر جڑی بوٹیوں سے اُس طرح کا فائدہ نہیں اُٹھایا جا رہا جس قدر ترقی یافتہ ممالک اُٹھا رہے ہیں اور شاید یہی اُن کی ترقی کی بنیادی وجہ ہے کہ وہاں قدرتی وسائل پر غور ہوتا ہے اور اِس سے انسانی زندگی کے لئے فوائد کشید کئے جاتے ہیں۔’ثمر باغ‘ کا ممتاز و توانا تعارف جماعت اسلامی پاکستان کے پانچویں امیر (سربراہ) ’سراج الحق‘ بھی ہیں جو 30 مارچ 2014ءسے ’جماعت اسلامی‘ کی قیادت کر رہے ہیں۔ امیر جماعت کی جانب سے ’2 ستمبر 2023ء‘ کے ملک گیر احتجاج کے اعلان نے پورے ملک میں ایک طرح کا ارتعاش پیدا کیا ہے‘ جس میں سیاسی و غیرسیاسی اور ہر مکتبہ¿ فکر کی نظریں جماعت پر ٹکی ہوئی ہیں۔عوام کی قوت برداشت جواب دے گئی ہے اور جماعت اسلامی نبض آشنا ثابت ہوئی ہے جس نے بروقت بجلی کی قیمت میں اضافے‘ بجلی بلوں میں انواع و اقسام کے ٹیکسوں پر فریاد کرنے والوں کی قیادت کا فیصلہ کیا ہے جو یقینا سبھی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کا پہلا نکتہ ہوگا بجلی کے بلوں کے خلاف احتجاجی تحریک ’سول نافرمانی‘ کی طرف بڑھ رہی ہے جس کے بارے میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے خبردار بھی کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی جس نے عام انتخابات میں تاخیر کے لئے مردم شماری نتائج بعض اعتراضات و تحفظات کے باوجود اِس کی منظوری دی اب مطالبہ کر رہی ہے کہ پرانی مردم شماری کے مطابق ہی نئے انتخابات جلد از جلد کروائے جائیں جماعت اسلامی کی شاخیں ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں لیکن اِس کی جڑیں خیبرپختونخوا میں ہیں اور ایک مرتبہ پھر خیبرپختونخوا میں ’تبدیلی کی ہوا‘ چلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جماعت کو سیاسی میدان خالی ملے گا یا مقابلہ سخت نہیں ہوگا بلکہ تمام جماعتوں میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ حالات کی مناسبت سے اور علاقائی سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی مرتب کریں اور مخالفین کو سرپرائز دیں بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو مثبت امیدیں رکھنا بہترین آپشن ہے کیونکہ وطن عزیز میں وسائل کی کمی نہیں بس ان کو صحیح طریقے سے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔