شمسی توانائی کے نظام کی ترقی صدیوں پر محیط ہے‘ جو ابتدائی مشاہدات سے لے کر جدید شمسی ٹیکنالوجی تک بتدریج ارتقائی عمل کو ظاہر کرتی ہے۔ شمسی توانائی کی تاریخ میں چند اہم سنگ میل قابل ذکر ہیں۔ساتویں صدی قبل مسیح سے چوتھی صدی قبل مسیح: قدیم یونانی اور رومی لوگ اپنے ہاں عمارتوں کو ڈیزائن کرنے میں سورج کی روشنی (طاقت) کا استعمال کرتے تھے جس سے اُنہیں موسم سرما کے دوران شمسی حرارت سے اپنے گھر گرم رکھنے میں مدد ملتی۔ انسانی تاریخ میں سورج کی توانائی سے گھروں کو گرم رکھنے کے اس عمل کے بارے میں تاریخ دانوں اور سائنسدانوں کا اتفاق ہے کہ انسانوں نے شمسی توانائی کا پہلی مرتبہ اِس طرح استعمال کیا تھا جس پر سوچ بچار کے بعد سورج سے آنے والی روشنی کی اہمیت اور اِس میں چھپے ہوئے توانائی کے خزانے کی‘ بعدازاں کھوج کی گئی۔1767ءمیں سوئس سائنسدان ’Horace-Benedict de Saussure‘ نے ایسا آلا ایجاد کیا جس سے شمسی توانائی کو محفوظ کیا جا سکتا تھا۔ دراصل وہ شیشوں سے بنا ہوا ایک ڈبہ تھا جس پر پڑنے والی سورج کی روشنی اِس کے اندر کچھ وقت کے لئے جمع رہ سکتی تھی۔ 1839ءمیں فرانسیسی ماہر طبیعیات الیگزینڈر ایڈمنڈ بیکوریل (Alexandre Edmond Becquerel) نے فوٹو وولٹک ایکفیٹ دریافت کیا‘ جو اس تصور پر مبنی تھا کہ اگر روشنی کے سامنے کچھ خاص قسم کی چیزیں لائی جائیں تو اُن کے اندر توانائی (برقی رو) پیدا ہوتی ہے۔ 1873ءمیں ایک انگلش الیکٹریکل انجینئر ’ولوفبی اسمتھ (Willoughby Smith)‘ نے سیلینیم (Selenium) نامی دھات میں حرارت دینے (فوٹو کنڈکٹیویٹی) کی صلاحیت پائی جاتی ہے اُنہوں نے اِس صلاحیت کا مشاہدہ کیا اور تجربات کے بعد بالآخر پہلا ’فوٹو وولٹک سیل (Photovoltaic Cell)‘ بنایا۔ 1883ءمیں چارلس فرٹس (Charles Fritts) نے پہلا ’سولر سیل‘ بنایا۔ اُنہوں نے سونے کی پتلی تہہ کے ساتھ سیلینیم دھات کے ٹکڑوں کو جوڑ کر دنیا کا پہلا حقیقی شمسی سیل ایجاد کیا۔ 1954ئ: بیل لیبارٹریز نے دنیا کا پہلا سلیکان سولر سیل (Silicon Solar Cell) متعارف کرایا‘ جس کی کارکردگی چار فیصد تھی یعنی وہ سوفیصدی سورج کی روشنی سے چار فیصد توانائی حاصل کر سکتا تھا اِسے جدید شمسی ٹیکنالوجی کا آغاز قرار دیا جاتا ہے۔ موجودہ سولر سسٹم تیس فیصد کی صلاحیت رکھتا ہے اور جدید ترین سولر سسٹم جو صنعتی پیمانے پر تیار نہیں کیا گیا وہ اِس پیداواری صلاحیت کو پچاس فیصد تک لے گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ دنیا میں شمسی توانائی سے بجلی حاصل کرنے کی صلاحیت بڑھانے پر مسلسل کام ہو رہا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ مستقبل میں صرف ایک ہی سولر پلیٹ سے ہزاروں واٹ بجلی حاصل کر لی جائے اور یہ سولر پینل سوفیصدی نہیں بلکہ کئی سو فیصدی کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔1970ءکی دہائی میں دنیا نے تیل کا بحران دیکھا اور اِس دوران قابل تجدید توانائی کے ذرائع بشمول شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کی گئی۔ یہی شمسی توانائی میں تحقیق اور ترقی کی تازہ دم کوششیں کا نکتہ¿ آغاز ثابت ہوا اور یہی سولر سیل ٹیکنالوجی کی کارکردگی و صلاحیت بہتر بنانے‘ اِس کی بڑے پیمانے پر تیاری اور اِس کی لاگت کم کرنے کا دور بھی ثابت ہوا۔ سال دوہزار کی دہائی کے اوائل میں مٹیریل سائنس اور مینوفیکچرنگ تکنیک میں پیشرفت ہوئی جس کے نتیجے میں سولر سیل کی کارکردگی میں اضافہ اور پیداواری لاگت کم ہوئی‘ 2020ءسے شمسی توانائی کا چھوٹے پیمانے (گھریلو صارفین) نے استعمال شروع کر رکھا ہے کیونکہ حکومتیں‘ ادارے اور افراد موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو ترجیح دے رہے ہیں۔ تکنیکی اختراعات جیسا کہ پیرووسکائٹ سولر سیلز اور بائی فیشل پینلز شمسی توانائی کے نظام‘ کارکردگی اور استعداد کو بڑھا رہے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ شمسی توانائی مسلسل اور بتدریج ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہے۔