پولیو حملے : بڑا دھچکا

پاکستان کا شمار بدقسمتی سے دنیا کے اُن دو ممالک میں ہوتا ہے جہاں ’پولیو‘ نامی بیماری کا جرثومہ (وائرس) موجود ہے اور اِس وائرس کی وجہ سے متاثر ہونے والے بچے کم سنی سے تمام عمر کے لئے معذور (اپاہج) ہو جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ”پولیو سے پاک“ ملک کا خواب اب خیال بن چکا ہے کیونکہ تمام ترکوششوں (انسداد پولیو مہمات) کے باوجود یہ وائرس پاکستان سے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے حالیہ اجلاس میں انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز (دوہزارپانچ) کے تحت قائم ایمرجنسی کمیٹی نے پاکستان سے پولیو وائرس کا خاتمہ نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور نشاندہی کی گئی کہ ہر چند ماہ بعد پاکستان کے کسی حصے سے پولیو کا نیا کیس سامنے آتا ہے اور رواں برس (دوہزارتیئس) میں اب تک پاکستان میں پولیو سے متاثرہ مریضوں کی مجموعی تعداد دو ہوگئی ہے اور اِن دونوں پولیو کیسیز کا تعلق کراچی اور پشاور سے ہے جہاں سے پولیو کے مثبت نمونے قومی فیصلہ سازوں کے لئے ’بڑا دھچکا‘ ہیں۔ یہ کوئی خبر نہیں کہ پاکستان پولیو کے خاتمے کے لئے ناقابل یقین کوششیں کر رہا ہے۔ ایک چیز جو آنے والی تمام حکومتوں کی کارکردگی میں مشترک پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کو پولیو سے پاک بنانے کے لئے کوششیں جاری ہیں ہیں اور ٹھوس اقدامات کئے گئے ہیں لیکن اِن کوششوں اور اقدامات کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ جب ملک پولیو سے پاک قرار دیئے جانے کے بہت قریب تھا تو بھی اگر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاتا تو آج صورتحال قطعی مختلف ثابت ہوتی۔ پولیو وائرس کا دوبارہ سر اُٹھانا انسداد پولیو کے جاری پروگرام میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی کر رہا ہے جس نے ملک سے پولیو کا مکمل خاتمہ کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ پاکستان کو انسداد پولیو ویکسی نیشن کے خلاف مزاحمت کے کبھی نہ ختم ہونے جیسے مسئلے کا سامنا ہے۔ خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں میں پولیو ویکسینیشن کے بائیکاٹ جاری ہے اور وہاں سے آمدہ اطلاعات کے مطابق والدین اپنے بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے سے صاف انکار کر رہے ہیں۔ نتیجتاً حفاظتی ٹیکوں کی مہمات اپنے اہداف پورا کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ سال دوہزاربائیس میں پولیو کیسز کی تعداد زیادہ بائیس تھی۔ رواں سال پولیو کے کیسز اُنہی علاقوں سے سامنے آئے ہیں جہاں اِس کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے اور مقامی افراد پولیو ویکسی نیشن کی غلط فہمی کی بنیاد پر مخالفت کر رہے ہیں۔ ویکسی نیشن ٹیمیں عام طور پر اُن گھروں کا دورہ کرتی ہیں جن کے بچے پہلے دورے کے دوران گھر پر موجود نہیں ہوتے۔ ملک سے باہر سفر کرنے والے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے لئے سبھی بڑے ہوائی اڈوں پر پولیو ٹیمیں تعینات ہیں۔پاکستان کو اِس وقت پولیو ویکسین کے بارے میں غلط فہمیوں کے خلاف لڑنے کے لئے ایک مضبوط بیانیے اور ایک توانا مہم کی ضرورت ہے۔ پولیو ویکسین کے خلاف سازشی نظریات اور ویکسین کے بارے میں جھوٹ پھیلانے میں ملوث افراد سے سختی سے نمٹا جانا چاہئے۔ حکومت کو مقامی رہنماو¿ں اور مذہبی اسکالرز کے ساتھ مل کر ویکسین کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنا ہوگا۔ صرف اتنا ہی ضروری ہے بلکہ والدین کو پولیو کے خطرات اور اس کے کسی بچے کے لئے زندگی بھر کے لئے مضمرات سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ ایسے بچے جو بہت ہی چھوٹی عمر میں اپاہج و مفلوج ہو رہے ہیں۔ حفاظتی ٹیکوں کی مہمات کے بارے میں لوگوں کے رویئے درست کرنے کی کوششوں کے بغیر‘ انسداد پولیو کا پروگرام قابل ذکر نتیجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔