جن بزرگوں نے پشاور سے نکلنے والے انگرےزی اخبارخیبر مےل کو اب تک ےاد رکھا ہوا ہے ان کو ضرور ےاد ہوگا اےک صاحب طرز ادےب خےبر مےل مےں مختلف مو ضوعات پر شستہ انگرےز ی مےں کالم لکھا کرتے تھے اپنا نام مختصر کر کے ” کے اے ملک “ لکھتے تھے بعد ازاں پاکستان ٹائمز‘ڈان اور فرنٹےر پوسٹ مےں ان خطوط نے شہرت پائی ، بےرسٹر باچا کی طرح مختصر الفاظ اور تےن چار لائنوں مےںمدعا بےان کرتے تھے ان مےں چاسر‘ شےکسپےئر ‘ملٹن‘ جارج برنارڈ شا اور دیگر دانشوروں کی تراکےب اور مصرعوں کو مسجع کر کے طرز بےان مےںلطف پےدا کر تے تھے ان کا اسلوب اےسا تھا کہ نام نہ بھی لکھتے تو قاری پہچا ن لےتا کہ ےہ کے اے ملک کی تحرےر ہے جوانی مےں ہندوستان کی سےاحت کی 74 سال کی عمر مےںگھوڑے پر سوار ہو کر بدخشاں کا دورہ کےا ےہاں احمد شاہ مسعود انکے مےزبان تھے 80 سال کی عمر مےں اپنے دوست مےجر اولڈرینی (Maj Oldrini) کی دعوت پر انگلےنڈ کا سفر کےا واپسی پر ”خزاں کے رنگ “ساتھ لے آئے Automn Colours کو ےورپ مےںاس طرح سراہا جاتا ہے جس طرح ہمارے ہاں موسم بہار کو پسند کےا جاتا ہے انہوں نے اپنے باغ مےں اےسے پودے اور درخت اگائے جو ماہ اکتوبر سے دسمبرتک زرد ، سرخ اور زردی مائل پتوں کی وجہ سے رنگوں کی بہار دکھاتے تھے ۔مےجر (ر) خوش احمد الملک مرحوم نے چترال کی سابق رےاست کے والی شجا ع الملک کے ہاں 1920 مےںآنکھ کھولی آپ کی والدہ رےاستی مشےر اتالےق بہادر خان کی بےٹی تھیں اتالےق سرفرار شاہ آپ کے ما موں اور اتالےق جعفر علی شاہ آپ کے ماموں زاد بھائی تھے شجا ع الملک نے اپنے بےٹوں کی تعلےم و تربےت کےلئے رائل ملٹری سکول ڈےر ہ دون ہندوستان کا انتخاب کےا ناصر الملک ‘ مظفر الملک ‘حسام الملک ‘مطاع الملک ‘ حنسر والملک ‘ خوش وقت الملک اور برہان الدےن نے بھی دون سکول مےں تعلےم پائی 10 سال کی عمر مےںخوش احمد الملک کو بھی دون سکول مےںداخل کےا گےا آپ کو رائل انڈےن ائےر فورس مےں کمےشن ملا مگر بےماری کی وجہ سے فضا ئےہ مےںسروس جاری نہ رکھ سکے چنا نچہ ان کو بری فوج ملےشےا فورس مےں کمےشن دیا گیاساﺅتھ وزےرستان سکاﺅٹس اورکر م ملےشےا مےں خدمات انجام دےں اور1966میں مےجر کے عہدے پر رےٹا ئر ہوئے دونوں بےٹوں مسعود الملک اور مقصود الملک کو سےنٹ جوزف کا نونٹ سکول کوہاٹ مےںتعلےم دلوائی آپ وسےع المطا لعہ تھے انگرےزی کےساتھ فارسی ادب کا بھی گہرا مطالعہ کےا تھا مولانا روم ‘ شےخ سعدی‘ شمس تبرےز اور علامہ اقبال کے فارسی کلام سے شغف رکھتے تھے ان کا اپنا رجحان مادری زبان کھوار کی طرف تھا کھوار مےں انکی طوےل نظم ”گلائی گلائےو جواب “ 1996ءمےںشائع ہوئی ترکےب بند کی صنعت مےںےہ نظم چترال کی تارےخ اور آنے والے دور کے چےلنجوں کا احاطہ کرتی ہے اور ” ازدل خےز د بردل رےزد “ کا مسحو رکن اثر رکھتی ہے علم و ادب اور باغبانی کےساتھ ساتھ آپ سےاست مےں بےداری کی تحرےک کےساتھ بھی وابستہ رہے1970 کے عام انتخابات مےں آپ نے حصہ لےا قومی اسمبلی کا الےکشن لڑا مگر آپ کے ماموں زاد بھائی اتا لےق جعفر علی شاہ بازی لے گئے انتخابی مہم کے دوران گھوڑے پر پورے چترال کا دورہ کےا گاﺅں گاﺅں جاکر اپنی نظمےں سنا کر لوگوں کو گرماےا 1980 سے 1984 تک افغان مہا جرےن کے اےڈمنسٹرےٹر رہے آپ نے قدرتی وسائل ‘پاک افغان تعلقات ‘ پاک بھارت تعلقات ‘ بہتر نظم ونسق کے مسائل اور شہری حقوق پر لکھی ہوئی اپنی مطبوعہ تحرےروں کو الگ الگ ابواب کی صورت مےں ےکجا کر کے کتابی صورت دی تھی مگر ےہ کتاب شائع نہےںہوئی آخری عمر مےں آپ کو ا س بات کو دُکھ تھا کہ لواری ٹنل کھلنے کے بعد چترال کی منفرد تہذےب اور ثقافت معد ومےت کے خطرے سے دوچار ہوجائےگی اعلیٰ حضرت شجاع الملک کے 16 بےٹوں مےں سب سے زےادہ یعنی 97سال کی عمر پائی۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی