اب تو شہریوں نے ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی چھوڑ دیا ہے ۔سڑکوں پر گھومتے پھرتے دکھائی نہیں دیتے ۔جیسے پہلے چلتے تھے ۔بازاروں کی وہ چہل پہل بھول ہی گئی ہے۔گاہک نایاب ہو رہے ہیں۔پہلے مال کم یاب تھا مگر اب کے صورتِ حال بدل گئی ہے۔کیونکہ کسی کے گھرجا¶ اگر پیدل کا راستہ ہے تو چلو ٹھیک ہے چلتے ہیں مگر وہاں بھی تو جن کے گھر جائیں ان کو پریشان کرنے والی بات ہے ۔کیونکہ گرانی نے ہر کس و ناکس کی کمر توڑ دی ہے ۔پہلے تو لوگ خوش ہوتے کہ آہا آپ او رہمارے گھر بہت خوشی ہوئی ۔اب مہنگائی کے بعد وہی جملہ دہراتے ہیں اور سوالیہ انداز سے بات کرتے ہیں کہ اوہو آپ اور ہمارے گھر ؟۔ ہم تو پہلے ہی خوداپنے ہاتھوں ستائے ہوئے ہیں اوراوپرسے آپ کا آنا۔۔۔مگر یہ بات وہ دل ہی دل میں ادا کرتے ہیں۔پہلے کہتے تھے کہ ” قدر کھو دیتا ہے روز کا آنا جانا“ ۔ یہ کہاوت تو ارزانی کے زمانے کی ہے ۔مگر اب اس کا مزا آنا شروع ہوا ہے ۔پہلے کا یہ قول بھی تھا کہ ایک دن مہمان دوسرے دن بلائے جان“۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ
ہمارے گھر کوئی نہ آئے ۔ سو بار آئے ۔مہمان بھی تو ہر کسی کے گھر نہیں جاتے۔مگر شہر سے اتنا دور ہیں کہ جو ہمارے گھر آنا چاہے وہ تو اول رکشے والے کو چار سو روپے ہاتھ میں تھمائے تو آئے یا اگر گاڑی کو تو خیر چھوڑیں بائیک پر ہی ان کا آنا ان کو افورڈ نہ ہوگا۔ کیونکہ پٹرول کونسا سستا ہے۔تین سو روپے کا ڈالو اور واپسی پر دوبارہ تین سو کا ڈالو ۔اس لئے رکشہ کا کرایہ زیادہ بہتر رہے گا کہ چلو بندے اگر چار بھی ہوں تو رکشہ والے بھائی صاحبان ان کو کہیں نہ کہیں سے ٹھونس کر لمبے سفر پر چل نکلتے ہیں۔ہمارا تو مسئلہ نہیں پرابلم ان کا ہے ۔پھر ہم بھی تو نہیں جاتے کہ ہم گئے تو ہمارے مہماندار ہماری وجہ سے مشکل میں پڑجائیں گے ۔جو صاحبِ ذوق ہو تے ہیں وہ چاہتے کہ اپنے مہمان کا دستر خوان دنیا کی ہر نعمت سے سجا دیں ۔کم از کم ہمارا تو یہی خیال ہے ۔مگر مہمان خو دکسی کے گھر جانے سے آج کل کترا رہے ہیں ۔ پھر اس کی صاف وجہ ہے کہ مہنگائی نے ریکارڈ توڑ ہفتے قائم کر لئے ہیں ۔ شہریوں نے گاڑیاں کسی باغیچہ کے باہر پارک کرنے سے کہیں زیادہ بہتر سمجھا ہے کہ گھر ہی گیرج میں پارک کر دیں ۔کیونکہ پٹرول حب بحساب قطرہ قطرہ مل رہا ہو تو یہ دریا بھی کیسے بنے گا ۔کیونکہ پانی ہو تو وہ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے ۔پٹرول کا ایک قطرہ اگر زمین پرگرے تو دریا تو کیا بنے خود غائب ہو جاتا ہے۔تعلق دار جاتے تو ہیں مگر جس برق رفتاری سے آتے جاتے تھے وہ رفتار بہت دھیمی پڑ گئی ہے۔اب مہمان اور مہمانداری کے محاورے کہاوتیں یا تو دم توڑ گئی ہیں ۔پہلے گھر آئے مہمان ازراہِ تکلف کہتے کہ آپ نے بلا وجہ اتنی تکلیف کی جو دستر خوان اتنا سجا دیا۔جواب میں گھر والے کہتے کہ ارے اچھا کیا جو آپ آگئے ۔وگرنہ تو ہمیں آپ کا یہ حصہ آپ کے گھر خود پہنچانا پڑتا ۔مگر آج کل یہ حالت نہیں رہی۔۔اب تو شادی بیاہوں میں بھی کھانوں کے آئیٹم مختصر ہونے لگے ہیں۔جس طرح گول میز پر پہلے بہار ہوا کرتی تھی اب خزاں رسیدہ درختوں کی طرح کھانوں سے خالی ہے ۔شادیا ںبھی کم ہو گئی ہیں ۔مہمانوں کو کم تعداد میں بلانے لگے ہیں۔پہلے تو پورا قوم قبیلہ او رخاندان ایک بھیڑ کی شکل میں ولیمہ پر حملہ آور ہوتا تھا مگراب ہر گھر سے دو بندوں کو بلاتے ہیں۔اس مہنگائی نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔کھانے کے بعد دانت کی تیلیا ںبھی غائب ہو گئی ہیں اور ساتھ میں ٹشو کے رومال بھی ندارد۔۔۔پہلے تھے کہ جو جی چاہا کھا لیا ۔اب تو جو وہ رکھیں گے کھانا پڑے گا۔ چاول ہوںگے تو اس میں گوشت نہیںملے گا بلکہ گوشت کی چھوٹی چھوٹی بوٹیوں کے وہ بھی آثار ہی پائے جائیں گے۔اب کیا کریں لوگوں کی مجبوریاں بھی ہیں اور مہنگائی بھی ہے ۔راستہ ان دونوں مسائل کے درمیان میں سے ہو کر گیا ہے۔اگر اس پر چلے تو کام چلے ورنہ رُکے تو کھڑے رہ گئے ۔سو وقت کی مناسبت سے کام نکالیں ۔جو باتیں کریں گے وہ تو کریں گے ۔بلکہ کھانے کی میز پر سونے چاندی سے بنے ہوئے کھانے بھی رکھو تو بعد میں باتیں سننا پڑتی ہیں کہ کھیر تو تھی مگر مربہ نہ تھا چاول تھے مگر چھوٹی چھوٹی بوٹیوں کا کیا مقصد تھا ۔حالانکہ ان کو پتا ہوتا ہے کہ اس کا کیا مطلب تھا۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ابھی تو شروعات ہے اور اس کے نتائج جو سامنے آئے ہیں وہ دم بخود کرنے والے ہیں۔