موسمیاتی تبدیلی عذابِ سے کم نہیں 

موسمیاتی تبدیلی واقعی عذابِ کے مترادف ہے کیونکہ اس نے دنیا کے کئی ممالک بشمول پاکستان میں ایک بہت بڑی تباہی مچادی ہے‘ بے موسمی بارشوں نے سیلابوں کی شکل اختیار کی اور پھر ان سے مختلف بیماریاں پھوٹی ہیں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک جن کی معاشی حالت پہلے سے ہی ڈانواں ڈول ہے وہ بھلا کہاں مالی طور پر ان تباہیوں کا مقابلہ کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کئی ممالک پر نازل ہوئی ہیں‘ امید ہے ہمارے نگران وزیر اعظم اس موضوع پر چند دنوں میں ہونےوالی عالمی سطح کی کانفرنس میں اپنی تقریر کے ذریعے موثر انداز میں وطن عزیز کو اس سے جو سنگین نقصانات ہوئے ہیں ان کا احاطہ کر کے ترقی یافتہ ممالک پر زور دیں گے کہ وہ موسیمیاتی تبدیلی سے ترقی پذیر ممالک کو جو مالی نقصانات ہوئے ہیں‘ ان کا ازالہ کرنے کے لئے ان کی مدد کریں۔ امید ہے وزیراعظم پاکستان جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب کے دوران عالمی برادری کی توجہ اس بربریت کی طرف بھی مبذول کرائیں گے جو بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے متوالوں پر کر رہی ے اور جس پر دنیا کا ضمیر ٹس سے مس نہیں ہو رہا‘ وزیراعظم صاحب کو اقوام متحدہ کی توجہ ان پوسٹرز کی طرف دلوانی بھی ضروری ہے جو بھارتی ریاست ہریانہ کے اس علاقے میں آ ویزاں کئے گئے ہیں کہ جہاں مسلمان رہتے ہیں اور جس میں لکھا گیاہے کہ عزت بچانی ہے تو مسلمان گھر خالی کر دیں۔یہ خبر تکلیف دہ ہے کہ ڈاکٹرز انجینئرز سمیت ہزاروں ہنر مند افراد بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں‘ اس روش سے اگر آج نہیں تو کل وطن عزیز میں برین ڈرینbrain drain پیدا ہونے کا خطرہ سامنے آجائےگا۔روس کے مسلم علاقوں میں اسلامی بینکنگ کاآغاز ایک اچھی پیش رفت ہے اور کامیابی کی صورت میں روس بھر میں اسے متعارف کرایا جا سکتا ہے اس اقدام سے روس میں موجود مسلم کمیونٹی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ اسراف کی اس سے بڑی مثال بھلا اور کیا ہو سکتی ہے کہ سرکاری اہلکار سرکاری گاڑیوں میں ہر سال اربوں روپے کا ایندھن مفت میں استعمال کر رہے ہیں اسی طرح سرکاری گاڑیوں کی مرمت پر بھی ہر سال اربوں روپے کا خرچہ اٹھ رہا ہے اس لئے بعض مبصرین نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ قوانین کے تحت جن سرکاری اہلکاروں کو سرکاری گاڑی رکھنے کا اختیار حاصل ہے ان کو سرکاری گاڑی اور ڈرائیور الاٹ کرنے کے بجائے دفتر آنے جانے کے واسطے ایک فکسڈ رقم ہر ماہ ان کی تنخواہ کے ساتھ بطور ٹرانسپورٹ الاﺅنس اگر دے دی جایا کرے تو اس سے حکومت کو ہر سال کروڑوں روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔ انہیںسرکاری دوروں پر جانے کے لئے پہلے سے ہی ٹی اے ڈی اے کی سہولت حاصل ہے ۔چیف جسٹس صاحب کا ایک مقدمے کی سماعت کے دوران یہ جملہ بڑا معنی خیز ہے کہ لگتا ہے اب آمدن سے زائد اثاثے جرم نہیں رہا اور یہ کہ انچاسکروڑ کرپشن کرنے والانیب سے بچ کر آزاد ہو جائے گا‘ یہ توعام فہم بات ہے کہ اگر معاشرے کے کسی بھی فرد کے پاس بھلے اس کا تعلق کسی بھی پیشے سے کیوں نہ ہو اس کی معلوم آمدنی سے زیادہ اثاثے ہوں تو اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ وہ کہیں نہ کہیں ڈندی مار رہا ہے فلسفیوں نے غلط نہیں کہا ہے کہ ہر دولت کے انبار کے پیچھے ایک جرم چھپا کھڑا ہوتا ہے ۔