کہانی ختم‘ پیسہ ہضم۔ سولر نیٹ میٹرنگ کی کہانی بھی ختم ہونے جا رہی ہے جبکہ اِس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کا پیسہ ابھی ہضم بھی نہیں ہوا۔ بجلی بحران پر قابو پانے کےلئے جاری کوششوں میں عوام کو سولر سسٹم لگوانے کی ترغیب دی گئی اور اِس مقصد کے لئے ماضی میں شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار حاصل کرنے کے آلات کی درآمد پر عائد ٹیکس بھی ختم کئے گئے جس کی وجہ سے سولر سسٹم کی درآمدات میں اضافہ ہوا اور ایک دوسرے کو دیکھا دیکھی سولر سسٹم نصب کروانے میں سرمایہ کاری کا رجحان دیکھنے میں آیا۔ سولر سسٹم بنیادی طور پر 2 طرح کے ہوتے ہیں۔ ’آف گرڈ سسٹم‘ میں شمسی توانائی سے حاصل کردہ پوری بجلی (سوفیصد) صارف کی اپنی ضروریات پوری کرنے کےلئے استعمال یا ضائع ہو جاتی ہے جبکہ ’آن گرڈ سسٹم‘ میں سولر سسٹم کا صارف اپنی ضرورت سے زیادہ یعنی اضافی بجلی ضائع کرنے کی بجائے واپڈا کے ترسیلی نظام میں ڈال دیتا ہے اور اِس کے عوض اُسے دی گئی مقدار کے مساوی بجلی یا اُس کی قیمت واپڈا کی طرف سے سہ ماہی بنیادوں پر ادا کی جاتی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ حکومت سولر سسٹم کی نیٹ میٹرنگ سہولت ختم کرنے جا رہی ہے کیونکہ اِس سے بجلی خریداری کے اُن معاہدوں کی تکمیل میں دشواری پیش آ رہی ہے جو نجی بجلی گھروں سے کئے گئے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ نجی بجلی گھر ’کیپسٹی چارجز‘ وصول کرتے ہیں یعنی اگر اُن سے بجلی نہ بھی خریدی جائے تب بھی حکومت اُن کو پیداواری صلاحیت (جنریشن کیپسٹی) کے مطابق ادائیگی کرتی ہے اور چونکہ گھر گھر سولر سسٹم لگ رہے ہیں اِس لئے نجی بجلی گھروں کے کیپسٹی چارجز اور نیٹ میٹرنگ صارفین کو ادائیگیاں کرنے سے واپڈا کی آمدنی کا بڑا حصہ خرچ ہو رہا ہے۔ نجی بجلی گھروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اگر فیصلہ ساز عوام کے لئے نیٹ میٹرنگ کی سہولت ختم کر دیں گے تو اِس سے سولر سسٹم کی خریدوفروخت میں کمی آئے گی۔ سولر سسٹم روزگار کی فراہمی کا ذریعہ ہے جبکہ اِن کی مانگ کو دیکھتے ہوئے اندرون ملک بھی سولر آلات اور بیٹریوں کی فروخت کی صنعت پھل پھول رہی ہے جبکہ سولر سسٹم کی درآمد میں سرمایہ کاری والے بھی اِس صنعت سے منہ موڑ لیں گے۔ خام تیل‘ کوئلے یا گیس سے بجلی بنانے والے نجی بجلی گھر ماحول دوست نہیں جبکہ سولر سسٹم سے حاصل ہونے والی بجلی ماحولیات تحفظ کےلئے بھی مفید ہے۔سورج کی روشنی (شمسی توانائی) سے بجلی پیدا کرنے کا نظام (سولر سسٹم) اور اِس نظام کی سب سے پرکشش خصوصیت ’نیٹ میٹرنگ‘ کا نظام بڑی دھوم دھام سے لایا گیا اور اب بتایا جارہا اس کو بھی ختم کرنے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ عجیب و غریب طرزحکمرانی ہے کہ پہلے ایک پالیسی بنائی جاتی ہے۔ پھر اُس پالیسی کو کامیاب بنانے کےلئے ٹیکسوں میں چھوٹ دے کر سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ جب سرمایہ دار فائدہ اُٹھا لیتے ہیں اور اُس حکمت عملی سے عام آدمی (ہم عوام) کو کچھ فائدہ (ریلیف) ملنے کا آغاز ہوتا ہے تو یکایک پالیسی تبدیل کر دی جاتی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ صرف وہی پالیسیاں تبدیل کی جاتی ہیں جن سے ’ہم عوام‘ کو فائدہ ہو رہا ہوتا ہے لیکن اُن پالیسیوں پر نظرثانی تک نہیں کی جاتی جن کی وجہ سے قومی خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے اور یہی پاکستان کا المیہ ہے کہ یہاں عوام اور صارفین کے حقوق کو تحفظ حاصل نہیں ہے۔نیٹ میٹرنگ کا نظام سال 2015ءمیں متعارف کرایا گیا اُور اِس نظام کو متعارف کرنے کےلئے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے سولر صارفین سے بجلی اُس قیمت سے کم پر حاصل کرنے کی منظوری دی تھی جس قیمت پر بجلی پر نجی اداروں سے خریدی جا رہی تھی بلکہ سولر نیٹ میٹرنگ کے صارفین کو کیپسٹی چارجز بھی ادا نہیں کئے گئے جیسا کہ نجی بجلی گھروں کو ادا کئے جا رہے تھے۔ اِس امتیازی پالیسی پر سولر صارفین نے اپنے حقوق پر ڈالے گئے ڈاکے کو خاموشی سے برداشت کیا اور شاید یہی وہ غلطی تھی جو اگر سال دوہزارپندرہ میں نہ کی جاتی تو سال دوہزاراٹھارہ میں نیٹ میٹرنگ سے حاصل کردہ بجلی کی قیمت میں کمی نہ کی جاتی۔ ’نیپرا‘ نے دوسری مرتبہ سولر صارفین کے حقوق غصب کئے اور ایک نظرثانی شدہ ٹیرف متعارف و متعین کردیا‘ جس میں صارفین سے زیادہ واپڈا کے مفادات کا تحفظ واضح تھا لیکن صرف یہی ظلم نہیں کیا گیا بلکہ ’نیپرا‘ نے سولر سسٹم لگانے کے مجاز ڈیلروں کو بھی متعارف کرایا اور کہا کہ آئندہ صرف ’اتھورائزڈیلرز‘ ہی سے سولر سسٹم لگانے والوں کو نیٹ میٹرنگ کی سہولت دی جائے گی۔ اِس فیصلے سے بدعنوانی کا ایک نیا دروازہ کھل گیا۔ ڈیلروں نے نیپرا سے اتھورائزیشن حاصل کرنے کے لئے دوڑ دھوپ شروع کی اور خوش قسمتوں کو رات رات عوام کو لوٹنے کے اجازت نامے (لائسنس) جاری کر دیئے گئے۔ لائسنس لینے والوں نے اپنی یونین (تنظیم) بنا کر سولر سسٹم کی خدمات اور آلات کی قیمتیں مقرر کرنا شروع کر دیں جس سے مارکیٹ میں مقابلے کا رجحان ختم ہو گیا اور سولر سسٹم کے آلات مہنگے ہو گئے۔ وہ سولر پینل جو کسی ’اَن اتھورائزڈ ڈیلر‘ سے خریدا جاتا اُس کی قیمت پانچ سے دس ہزار روپے سستی ہوتی۔ اِس اقدام پر بھی عوام خاموش رہی اور سولر سسٹم بمعہ نیٹ میٹرنگ لگانے کے لئے ہزاروں روپے کے آلات لاکھوں روپے میں خرید کر جب نصب کروائے گئے تو معلوم ہوا کہ ’نیٹ میٹرنگ‘ تو ختم ہونے جا رہی ہے! نیپرا کی جانب سے ایک نئی منطق بھی سامنے آئی ہے کہ ’نیٹ میٹرنگ‘ سے بجلی خریداری کے فارمولے کو ریورس کر دیا جائے یعنی سولر صارفین سے بجلی تو لی جائے لیکن اُس کی ادائیگی نہ کی جائے بلکہ یونٹ کے بدلے کم تعداد میں یونٹ ہی دیئے جائیں۔ سولر نیٹ میٹرنگ والے صارفین فوری طور پر پریشان نہ ہوں کیونکہ ’نیشنل انرجی افیشنزی اتھارٹی‘ کی جانب سے وضاحت آئی ہے کہ ابھی نیٹ میٹرنگ ختم کرنے کا فیصلہ نہیں ہوا بلکہ صرف غوروخوض ہو رہا ہے اور واپڈا کا خسارہ کم کرنے کے لئے آنے والی مختلف تجاویز میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ سولر سسٹم کی نیٹ میٹرنگ ختم کر دی جائے۔ حیرت انگیز طور پر جبکہ دنیا میں توانائی کے ماحول دوست ذرائع کا استعمال زیادہ بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے اور وقتی نہیں بلکہ وسیع تر قومی اور عالمی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوام کو سولر سسٹم میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جا رہی ہے لیکن پاکستان میں اِس کے بالکل اُلٹ حکمت عملی وضع کرنے کے بارے میں سوچنا اِس بات کی دلیل ہے کہ فیصلہ سازی کے منصب پر بیٹھے ہوئے لوگ کس طرح ملکی اور عوامی مفاد کی بجائے اُن سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں جنہوں نے نجی بجلی گھروں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔