پشاور کے گلی‘ محلوں کی لائبریریاں یاد آتی ہیں‘ ہمارے بچپن میں سادگی اور بے رنگی ہوتی تھی‘ آج کے بچوں کوجو آسائشیں جدید ترین کھلونوں اور ڈیجیٹل کھیل کی صورت میسر ہیں آج سے60/50 سال پہلے کوئی اس کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔زیادہ سے زیادہ ہاتھ سے بنی ہوئی گڑیائیں‘ اور ذرا شعور آیا تو گلی محلے میں آباد کئی چھوٹی چھوٹی لائبریریاں آباد تھیں جو معمولی کرائے پر کتاب گھر لے جانے کی اجازت دیتی تھیں‘ اکثر کتابیں پھٹی پرانی ہوتی تھیں جن کو لائبریرین نے مرمت کیا ہوتا تھا‘ ایسی شاہکار کتابیں کہ اس وقت عمر کے اوائل میں شعور ہی نہ تھا کہ باکمال لوگوں نے کیا کیا تخلیق کر ڈالا ہے ۔محلے کی لائبریریوں کی وہی کتابیں پڑھ کر اردو ادب ذہن نشین ہوتا چلا گیا اور اب عمر کے اس حصے میں کتاب اور کتاب کی تخلیق کی اہمیت کا احساس دوچند ہوگیا ہے‘ ہرصدی اپنے اندر ایک کہانی چھپائے پھرتی ہے اٹھارویں انیسویں صدی بھی تخلیق کاروں اور موجدوں کے بھاری بھر کم وزن سے معتبر ٹھہرگئی ہے ۔ٹورنٹو میں دنیا کی مشہور زمانہ گلی ہے جس کا نام ینگ سٹریٹ ہے اس گلی کے چرچے ساری دنیا میں ہےں لیکن ایک چرچایوں ہے کہ سال بھر میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں کہ ٹورنٹو اور آس پاس کے سارے شہر اپنے گھر سے اپنی تمام کتابیں گلی میں بچھا دیتے ہیں جیسے قالین یا دری بچھائی جاتی ہے یہ وہ کتابیں ہوتی ہیں جو صاحب خانہ پڑھ چکا ہے اور چاہتا ہے کہ دوسرے دوست احباب بھی اس سے فائدہ اٹھائیں‘ اس میں قیمتی ترین کتابیں اور دنیا کے ہر موضوع اور ہر زبان میں لکھی گئی کتاب موجود ہوتی ہے۔ ینگ سٹریٹ دنیا کی لمبی گلی ہے اور وہ کتابوں سے بھر جاتی ہے میں سوچتی ہوں لوگ نہ جانے اپنی پسند کی کتابیں کس طرح ڈھونڈتے ہونگے‘ لیکن جہاں پسندیدہ پھول ہوں ان کی خوشبو چاہنے والوں کیلئے سونگھنا مشکل نہیں ہوتا‘ ہمارے پاکستان میں اب گلی محلے کی لائبریریوں کی جگہ کمرشل دکانیں ہیں ۔کتاب کی دوکان پر کتاب خریدنا بس کی بات نہیں رہی‘ آج جب
میری ایک کتاب پبلشنگ میں ہے تو میں جانتی ہوں کہ ڈالر مہنگا ہونے کے باعث کتاب کی چھپائی آسمانوں پر اُڑ رہی ہے‘ ایسے میں جب لوگ سفید پوشی کے لبادہ اوڑھے پھر رہے ہیں بھلا کون کتاب خریدنے جیسے اضافی آرزو کا بوجھ لئے پھرتا ہے‘ آج کل فیس بک پر زور وشور سے کتابوں کی مشہوری کے اشتہار چلتے ہیں اور مفت ڈیلوری کی ٹافی بھی دی جاتی ہے۔ فیس بک پر ہی ہمارے کو لیگ اور پشاور کی جانی پہچانی شخصیت ہمایون اخوند نے بھی اپنی وال پر کتابوں کے بارے میں کچھ سوالات اٹھائے ہیں ان کے پاس نہایت قدیم ترین لائبریری ہے اکثر نہایت قدیم ترین تحریریں‘ اشتہار اور ان زمانوں کے چھپے ہوئے دعوت نامے لگاتے رہتے ہیں‘ جن کو پڑھ کر ہم جیسے لوگوں کو اچھا لگتا ہے جو واقعی ان وقتوں میں موجود تھے اور یہ سب کچھ اپنے اردگرد دیکھتے تھے‘ انہوں نے جو سوالات پوچھے ہیں وہ دلچسپ ہیں۔ یہ سوالات ان لوگوں سے پوچھے گئے ہیں جن کی اپنی ذاتی لائبریریاں ہیں کیا آپ نے اپنی لائبریری کی ساری کتابیں پڑھ لی ہیں‘ کیا آپ کے پاس اتنی کتابیں ہیں کہ چند ہمیں دے دیں‘ کیا یہ کتابیں عارضی طورپر دوسروں کو دیتے ہیں‘ کیا آپ نے کتابوں کو سائز کے حساب سے رکھا ہوا ہے‘ دیکھا جائے تو یہ غور طلب سوالات ہیں کاغذ کو دیمک ضرور لگتی ہے اس لئے اگر آپ نے کتابیں خود پڑھ لی ہیں تو ضرور دوسروں کو پڑھنے کیلئے دیں‘ عارضی طور پر دے دیں یا پھر مفت کسی طالب علم یا شوقین انسان کو دے دیں کتابوں کو سائز کے حساب
اورموضوع کے لحاظ سے رکھنا اک آرٹ ہے یقینا جو لائبریری بناتا ہے چاہے وہ چھوٹی سی ہی کیوں نہ ہو ان باتوں کا ضرور خیال رکھتا ہوگا‘ میرے پاس بھی بڑی نایاب کتابیں تھیں میں ترجیح دیتی ہوں کہ سکول کالج یا یونیورسٹی کی لائبریری کو عطیہ دے دوں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ کتاب سے مستفید ہوں‘ کتابوں کا ذکر کیا جائے اور کباڑ کی کتابوں کا ذکر نہ کیا جائے تو ناانصافی ہوگی اگر چہ یہ ایک بہت ہی وسیع موضوع ہے جس سے کافی سیر حاصل تحریر چاہئے گلی محلوں میں پھرنے والے کباڑیوں کو گھروں کے اندر سے فروخت کی جانے والی ہزاروں نایاب کتابیں ملتی ہیں یہ کتابیں گھر والوں کے بزرگوں کی اعلیٰ ترین کولیکشن ہوتی ہیں جو اب نئے بچوں کی ضرورت نہیں رہی بلکہ وہ جلد از جلد ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں کباڑی اونے پونے یہ کتابیں خریدتے ہیں اور ایک بات میں نے نوٹ کی ہے کہ کباڑی ہمیشہ کتابوں اور کاپیوں کی سب سے کم قیمت بتاتا ہے لوہا‘ ٹین‘ پلاسٹک پھر بھی اہمیت رکھتے ہیں کباڑی سے ہوتی ہوئی یہ نایاب کتابیں بڑے پیمانے پر سکینڈ ہینڈ کتابیں بیچنے والے تاجروں کے ہاتھ لگتی ہیں آپ کو حیرانگی نہیں ہونی چاہئے کہ اس میں ایوارڈ یافتہ کتابیں بھی شامل ہوتی ہیں اسی طرح کا ایک فون میں کبھی نہیں بھول سکتی کہ ایک شخص نے مجھے فون کیا کہ آپ کی کتاب ” میرا شہر دلبر“ میرے ہاتھ میں ہے اور میں فیصل آباد سے بول رہا ہوں‘ میں خوش ہوئی کیونکہ میری اس کتاب کو اباسین ادبی ایوارڈ ملا ہوا ہے کہنے لگا میں نے اس کو کباڑ کی دوکان سے خریدا ہے اب میرے حیران ہونے کی باری تھی‘ میں نے کسی کو تحفتاً دی ہوگی اس نے پڑھی یا نہیں کباڑ تک ضرور پہنچا دی‘ بھلا ہو وہ شخص کہ نہ صرف اس کتاب کو پڑھ چکا تھا بلکہ تعریف بھی کر رہاتھا‘ تو حاصل یہ ہوا کہ اگر آپ کتاب پڑھ چکے ہیں تو لائبریری کو تحفہ دے دیں یا پھر اپنے اس دوست کو جو کتاب کا دوست ہے لیکن خرید نہیں سکتا‘ اگر آپ کتاب کو خرید کر پڑھیں تو مصنف‘ مصنفہ پر آپ کا احسان عظیم ہوگا۔