وہ لو گ خو ش نصیب تھے جن کے دور میں ذرائع ابلا غ اس قدر فعال نہیں تھے اس طرح گاﺅں اور محلے سے با ہر کی کوئی خبر ان کے کا نوں تک نہیں پہنچتی تھی ان کو خواہ مخواہ کا دکھ اور غم نہیں ہوتا تھا ان کو کبھی یہ غم نہیں ہوا کہ امریکہ کی ایک بڑی ریا ست میں سفید فام دہشت گرد نے 3شہریوں کو قتل کر کے خود کو بھی گو لی مار دی ان لو گوں نے کبھی یہ خبر نہیں سنی کہ ایک ہزار کلو میٹر دور کسی شہر میں شو ہر نے بیوی اور بچوں کو مو ت کے گھا ٹ اتار نے کے بعد خو د کشی کی ایسی خبریں دن رات سن کر خواہ مخواہ اور بلا وجہ آدمی رنجیدہ ہوتا ہے بقول امیر مینا ئی بر چھی چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر، سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔ آج سے 200سال پہلے دنیا کے کسی بھی حصے میں ذرائع ابلا غ کی مو جودہ سہو لیات نہیں تھیں ، آج سے 100سال پہلے بر صغیر پا ک و ہند میں ایسی کوئی سہو لت نہیں تھی آج سے 50سال پہلے پا کستان میں ذرائع ابلا غ بہت محدود تھے اس لئے لو گ خو ش حال تھے بلڈ پریشر ، سردرد اور فالج کی بیماریاں نہیں تھیں آج بھی ایسے لو گ مو جو د ہیں جو سکون اور راحت کی تلا ش میں چند دنوں کے لئے گر مائی چراگاہوں پر جا تے ہیں جہاں 14000فٹ کی بلندی پر کوئی سگنل نہیں ہو تا باہر کی کوئی آواز نہیں آتی چنا نچہ سکون کے چند دن گزار کر خو شی اور مسرت حا صل ہو تی ہے ، ذرائع ابلا غ کو پوری دنیا میں نعمت کا در جہ دیا جا تا ہے ہم ذرائع ابلا غ سے بیزار کیوں ہیں ؟ اس سوال کے 101جوا ب ہو سکتے ہیں پشتو محا ورہ ©©”سل خبری سر یو“ کے مصداق مختصر اور جا مع جواب یہ ہے کہ دنیا بھر کے ذرائع ابلا غ نا امیدی اور خوف پھیلا نے کا دھندہ نہیںکر تے دنیا میں ذرائع ابلاغ کو اچھی خبروں کی تلا ش ہو تی ہے ، دنیا کے ذرائع ابلا غ اور ہمارے ذرائع ابلا غ میں یہ بنیا دی فرق ہے جو ہمیں خبروں سے بیزار کر تا ہے آپ سنگا پور اور جا پا ن کے ذرائع ابلا غ کو دو ہفتوں کے لئے دیکھتے اور سنتے رہیں ،مایوس کن خبریں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گی۔ جبکہ دوسری طرف ہمارے ہاں کچھ ذرائع ابلا غ میں ان کے سوا کوئی دوسری خبر ہوتی ہی نہیں سو شل میڈیا بھی ان خبروں کو آگے پھیلا تا ہے اس لئے نا امیدی اور ما یو سی پھیلتی ہے ،سچ تو یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ نے عوام میںسیاسی اور سماجی شعور بیدار کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی فعالیت کوئی مسئلہ نہیں بلکہ بہت سارے مسائل کا حل ہے ۔ بحیثیت مجموعی ہمارے ذرائع ابلاغ بھی اپنی ذمہ داری کااحساس بھی رکھتے ہیں اور اپنا موثر کردار بھی ادا کررہے ہیں، تاہم سوشل میڈیا جو آج کل انفارمیشن کا بڑا ذریعہ ہے ، اس کی مناسب مانیٹرنگ کی ضرورت ہے ۔یہاں پر اکثر ہیجان خیز اور ہنگامہ خیز خبروں کو ہی توجہ ملتی ہے حا لا نکہ ملک کے اندر اُمید اور آس کی بے شمار خبریں مو جو د ہو تی ہے تعلیمی اداروں کی اچھی خبریں ، صحت عامہ کے شعبے میں نئے تجربات ، صنعت و حر فت کے شعبے میں نئی کا میا بیاں ، کھیلوں کے شعبے میں نئی پیش رفت سے متعلق خبروں کی کوئی کمی نہیں پاکستان ملٹری اکیڈ یمی کا کول ہے ، پی اے ایف اکیڈیمی رسالپور ہے پا کستان نیول اکیڈیمی ہے ان کی قابل فخر سر گر میوں کو خبر کا در جہ نہیں دیا جا تا ، سیا لکوٹ میں کھیلوں کا بہترین سامان بنتا ہے سر جیکل آلا ت بنتے ہیں سیالکوٹ کے تا جروں نے نجی شعبے میں اپنا ائیر پورٹ تعمیر کیا ہے ایسی مثبت سر گر می وں کی کوئی خبر نہیں بنتی ، حطار انڈسٹریل اسٹیٹ ہری پور ، گدون انڈسٹریل اسٹیٹ صوابی سے لیکر نوری آباد کراچی تک ہزاروںکا ر خا نوں میں بہترین مال تیار ہوتا ہے فیصل آباد اور گوجرانوالہ کو دنیا میں مانچسٹر سے تشبیہہ دی جا تی ہے مگر ہم ان کا میاب مثا لوں سے بے خبر ہیں ۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی