بس ہوا ہی چل رہی ہے خواہ آہستگی سے ہو یا تیز چلے ۔کیونکہ ان دنوں ہوا یہی کچھ ہو رہا ہے ۔انشاءاللہ خان انشاءکا شعر اچانک یاد آ گیا ہے اور معاملہ کوئی بھی ہو شعر کا یاد نہ آنا ہمارے بس میں نہیں ہے ۔فرماتے ہیں ” نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی۔ تجھے اٹھکیلیا ںسوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں “ ۔پھر غالب نے کہا ” محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے ۔کہ موجِ بُوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا“۔ ہوا کے چلنے کی وجہ سے کبھی تو بارش کی امید لگ جاتی ہے او رآس کے دیئے کے جلتے ہیں پھر یہ ہوا یہ چراغ بجھا دیتی ہے ۔کیونکہ دھوپ نکل آتی ہے۔پھر ساری امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے تو چلو پانی کی کہیں سے سبیل تو نکل آتی ہے ۔یہی ہوا ہمارے آسمان کے بادل اڑا کر دور پار لے جاتی ہے۔” تپتے صحرا¶ں پہ گرجاسرِ دریا برسا ۔ تھی طلب کس کو مگر ابر کہاں جا برسا“ پھر فراز ہی کا شعر ہے کہ ” صحرا تو بوند کو بھی ترستا دکھائی دے بادل سمندروں پر برستا دکھائی دے ۔“ پورا جہاں بارش کی شرار سے شرابور ہے ۔مگر ہمارے ہاںبادل آتے ہیں او رچلے جاتے ہیں۔جیسے مہمان ہوں یا کوئی چھیڑ خوانی کر نے کے موڈ میں ہو۔حالانکہ پنڈی اسلام آباد اور بٹ خیلہ کے آر پار تک بارش او رتیز بارشوں کی اطلاعات سنتے ہیں ۔مگر فون بند کرتے ہی جب اپنے حصے کے آسمان کو دیکھتے ہیں تو برسنے کے لئے بادل بھا¶ تا¶ کرتے ہوئے نظرآتے ہیں ۔جیسے شمع بجھنے سے پہلے بُڑبڑاتی ہے اور پھر بجھتی ہے ۔اسی طرح گرمی مائل بہ اختتام ہے مگر جاتے جاتے اپنی تپش کے نشانات چھوڑ کر جانا چاہتی ہے۔مگر خیر امید پر زندہ ہیں ۔ اے سی لگا کر سوچتے ہیں کہ کیا غلط کیا کیونکہ اے سی کا بل بھی تو آئے گا ۔ہم نے بھی تو جون جولائی میں صبر سے کام لیا ۔ کیونکہ موسم کی آنکھ مچولی جاری تھی ۔ان دو مہینوں میں تو اتنا تنگ نہ ہوئے کہ جتنا اب ہوئے۔سو اب اے سی شروع کیا ہے ۔ساتھ باغ کے درخت تو ہوا کے سنگ جھولے لیتے ہیں ۔عین دوپہر کو شیشے میں نظر آنے والا یہ منظر بہت خوشگوار ہوتا ہے ۔لیکن جب کمرے کی ٹھنڈی ہوا میں سے باہر نکلو تو یہی منظر بیزاری پیدا کرتا ہے ۔اسی لئے ہم نے انشاءکا شعر لکھ دیا کہ ہم تو ان خوبصورت مناظر سے بیزار بیٹھے ہوئے ہیں ۔گرمی کے ستائے ہوئے لوگ دو ایک ہفتوں پہلے تو پنکھے کے نیچے بھی پانی سے نہانے کے بجائے اپنے ہی پسینوں سے نہا گئے تھے ۔سوچا چلو اگست ہے اب تو کچھ گزارا ہو جائے گا مگر بادلوں کے امید دلانے کے باوجود بھی مینہ نہ برسے تو ہم سُوئے آسمان دیکھنے کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں ۔ویسے بارش ہونے اور نہ ہونے میں بھی قدرت کے راز ہیں جو ہماری سمجھ سے باہر ہیں ۔مون سون کی بارشیں پورے ملک کے بیشتر علاقوں میں ہوئیں مگرہمارا شہر اس سے محروم رہا ۔وہ ناصر کاظمی کا شعر یاد آگیا” سنا ہے رات بھر برسا ہے بادل ۔مگر وہ شہر جو پیاسارہا ہے“۔تیرے آنے کا دھوکا سا رہا ہے ۔دیا سا رات بھر جلتا ہے“ ۔ہم نے بارش کی توقع میں سو پچاس دیئے رکھ دیئے کہ دل کی دیوار بغیر امید اور امنگوں کے خالی خولی اچھی بھی تو نہیں لگتی ۔بھلے دیوار تو ہے مگر امیدیں پوری نہ ہوں لیکن اس کے چراغ تو ضرور روشن ہونے چاہئیں۔ دل ہو اور امید نہ ہو ۔ باصر نسیم نے کہا ” تو نے اپنے دامن دل میں امیدیں چن تو لیں ۔ہیں مگر اس شہرِناپُرسا ں میں ہرجائی بہت“۔دل کی تنگ دامانی میں امیدوںکے چراغ روشن ہیں اب دیکھیں یہ محروم تمنا اپنی آنکھوں سے خیر کی بارش کب دیکھتے ہیں ۔کب اس شہرِ گل او رشہر تمنا کو سیراب کریں گے ۔احمد ندیم قاسمی کا شعر ہے کہ ” انداز ہو بہو تیری آوازِ پا کا تھا ۔ باہر نکل کے دیکھا تو جھونکا ہوا کا تھا “ ۔ اس طرح بھی تو ہوتا ہے کہ باہر کوئی نہ ہو اور دھیرے دھیرے سے جو ہوا چل رہی ہو وہی دروازہ کھڑکھڑا رہی ہو۔پھر انھی کا شعر ہے رات کے سناٹے میں ہم نے کیا کیا دھوکے کھائے ہیں ۔اپنا ہی جب دل دھڑکا تو ہم سمجھے وہ آئے ہیں“۔سو دعا ہے کہ بارش ہو اور خیر کی ہو کہ شہر والوں کو جہاں سے بھی سہی مگر کچھ تو ریلیف ملے ۔