پاکستان اور بھارت کے درمیان ایشیا کپ 2023 میں کل کھیلا جانے والا میچ بارش کی نذر ہوگیا۔ بھارت نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 266 کا اسکور بنایا۔ بھارتی اننگ کے آغاز میں بارش نے میچ میں خلل ڈالا لیکن یہ وقفہ مختصر ہی رہا تاہم اننگ کے اختتام پر بارش کی وجہ سے میچ میں ایک مرتبہ پھر وقفہ کرنا پڑا۔ یہ وقفہ اتنا طویل ثابت ہوا کہ میچ کے ساتھ ہی ختم ہوا‘کل کے میچ میں بلاشبہ پاکستانی فاسٹ بالرز نے بھارتی بلے بازوں پر اپنی دھاک بٹھا دی۔ دو تین سال ہو چلے کہ نہ صرف پاکستانی کرکٹ شائقین بلکہ کرکٹ کے سبھی شائقین کو شاہین آفریدی کے پہلے اوور کی وکٹ کی عادت سی ہوگئی ہے۔ ون ڈے ہو یا ٹی20، بیٹسمین چاہے کوئی بھی ہو، شاہین آفریدی کے ہاتھ میں موجود نئے سفید گیند سے بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ بھارت کے خلاف ایشیا کپ کے میچ میں شاہین پہلے اوور میں کئی بار وکٹ حاصل کرتے کرتے رہ گئے۔ گیند نے ان سائیڈ ایج لیا مگر وکٹوں کے پاس سے گزر گئی، پیڈز پر لگی تو ذرا اونچی لگی اور جب روہت شرما نے گیند ہوا میں اچھالی تو فخر زمان ایک مشکل کیچ پکڑنے میں ناکام رہے۔قسمت بھارت کے بیٹسمینوں کے ساتھ تھی لیکن بارش کے وقفے میں شاید قسمت ان سے روٹھ گئی۔ شاہین آفریدی نے نیپال کے خلاف وکٹیں تو حاصل کی تھیں مگر ردھم کچھ خاص نہ تھا لیکن بھارت کے خلاف میچ میں ردھم، سوئنگ اور کنٹرول سب واپس آچکا تھا۔ روہت شرما کو پہلے آﺅٹ سوئنگ سے کنفیوز کیا اور پھر ٹریڈ مارک شاہین ڈیلیوری نے روہت شرما کی وکٹیں اڑا دیں۔ کوہلی پاکستان کے خلاف کئی بڑے اسکور بنا چکے ہیں اور اس بار بھی کافی امیدیں تھیں کہ کوہلی بڑا اسکور کریں گے لیکن شاہین کی ایک اور عمدہ گیند کوہلی کے بلے کے اندرونی کنارے سے ٹکراتی ہوئی وکٹوں میں جاگھسی۔دوسری جانب سے نسیم شاہ بہت عمدہ لائن اور لینتھ کے ساتھ بالنگ کر رہے تھے، گیند میں سوئنگ بھی موجود تھی لیکن قسمت نسیم شاہ کے ساتھ نہ تھی اور وہ ابتداءمیں وکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ حارث رﺅف کی آمد ہوئی تو رنز کی رفتار تیز ہوگئی لیکن اسی دوران حارث رﺅف نے دو وکٹیں بھی حاصل کر لیں اور یوں پاکستان کو بھارت پر واضح برتری حاصل ہو چکی تھی۔ بھارتی ڈریسنگ روم میں بیٹھے روہت شرما اور کوچ راہول ڈریوڈ بھی کافی پریشان نظر آرہے تھے۔یہیں سے اشان کشان اور ہارڈک پانڈیا کی اس شراکت کا آغاز ہوا جو بھارت کو کھیل میں واپس لے آئی۔ شدید دباﺅ کے باوجود دونوں نے بہت عمدہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور دونوں کا بھرپور ساتھ پاکستانی فیلڈرز نے بھی دیا۔ افغانستان اور نیپال کے خلاف چند دن پہلے بہترین فیلڈنگ کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑی جیسے فیلڈنگ کرنا ہی بھول چکے تھے۔ یہاں تک کہ پاکستانی ٹیم کے بہترین فیلڈرز شاداب خان اور امام الحق کے ہاتھوں سے گیند پھسل رہی تھی۔شاندار بیٹنگ اور ناقص فیلڈنگ کے ساتھ اس پارٹنرشپ کے آگے بڑھنے میں اہم کردار کپتانی کا بھی رہا۔ بابر اعظم نے دونوں جانب سے اسپنرز کو طلب کر لیا اور یوں دونوں بیٹسمینوں کو کریز پر جم جانے کا موقع مل گیا۔ کمنٹری باکس میں بیٹھے سابق کھلاڑی ہوں یا سوشل میڈیا پر موجود شائقین، سبھی کی ایک ہی خواہش تھی کہ بابر اعظم ایک اینڈ سے فاسٹ بالرز کے ساتھ اٹیک کریں۔ سبھی یہ چاہتے تھے کہ پاکستانی کپتان بھارتی ٹیم کو مکمل پچاس اوورز کھلانے کے بجائے چالیس اوورز میں آل آﺅٹ کرنے کی کوشش کریں۔ایک وقت میں یہ بھی لگ رہا تھا کہ شاید بارش کی وجہ سے بھارتی ٹیم کی اننگ مکمل نہ ہو سکے اور شاید پاکستانی فاسٹ بالرز کے کافی اوورز باقی بچ جائیں۔ لیکن نہ سابق کھلاڑیوں اور کرکٹ شائقین کی خواہشات کا بابر اعظم پر کوئی اثر ہوا اور نہ ہی پاکستانی ڈریسنگ روم کی جانب سے اس بارے میں کوئی پیغام آیا۔اس دوران یہ بھی لگا کہ شاید بابر اعظم اسپنرز کے اوورز جلد از جلد ختم کروانا چاہتے ہیں۔ یہ اندیشہ بھی تھا کہ اگر آخری اوورز میں اسپنرز کو بالنگ دینا پڑی تو زیادہ اسکور ہی نہ پڑ جائے۔ لیکن کیا اس اندیشے کا سدِباب ٹیم سلیکشن میں کرنا ممکن نہیں تھا؟ آپ کو یاد ہی ہوگا کہ ٹی20 ورلڈکپ 2022ءمیں پاکستان بمقابلہ بھارت میچ میں بھی پاکستانی ٹیم تین فاسٹ بالرز کے ساتھ میدان میں اتری تھی۔ اس میچ میں پاکستانی ٹیم مینجمنٹ کو چوتھے فاسٹ بالر کی کمی اتنی محسوس ہوئی کہ زمبابوے کے خلاف اگلے میچ میں پاکستانی ٹیم چار فاسٹ بالرز کے ساتھ میدان میں اتری۔ لیکن کیا یہ بات اتنی آسانی سے بھلا دی جانے والی تھی؟وننگ کمبی نیشن برقرار رکھنا ایک عمدہ حکمت عملی ہوتی ہے‘چار فاسٹ بالرز کھلانے سے یا اشان کشان اور ہارڈک پانڈیا کی پارٹنرشپ کے آغاز پر ایک اینڈ سے فاسٹ بالر لگانے سے یہ تو یقینی نہیں تھا کہ بھارتی ٹیم 200 یا 225 پر ڈھیر ہو جاتی لیکن اس کا امکان بڑھ جاتا۔ فاسٹ بالرز کی واپسی ہوئی تو انڈین ٹیم جو 300 سے زائد رنز بناتی نظر آرہی تھی، 266 پر ہی ڈھیر ہوگئی۔