کچھ تو ڈھکن چرا کر لے جاتے ہیں۔ پھر اپنے نشے پانی کے لئے اونے پونے کباڑوالوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔ان کی ایک آدھ سگریٹ کے پیسے نکل آتے ہیںکیونکہ ہر چیز کی طرح منشیات بھی تو مہنگی ہو چکی ہیںمگر کباڑ والوں کو بھی چاہئے کہ لوہے کے ڈھکن والے نشے کے عادی افراد کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کریں ان سے پوچھ گچھ کریں کہ یہ ڈھکن کس جا سے اکھاڑا ہے ۔ان کو سزا ملے تاکہ آئندہ کے لئے وہ ایسی غلط حرکت کے مرتکب نہ ہوںکیونکہ صرف ڈھکن تو اکھاڑنا نہیں ہے۔اس میں موٹر سائیکل رات کو تو کیا دن کو بھی گر سکتے ہیںاور رات کو تو ویسے بھی نظر نہیں آتا ۔شب کے اندھیروں میں کتنی گاڑیاں ان مین ہول میں اپنے اگلے ٹائر سمیت گر چکی ہیں۔پھر یہ چوری چکاری تو دہائیوں سے ہو رہی ہے۔لیکن ان دنوں کچھ زیادہ ہوگئی ہے ۔جب جب ملک پر مالی بحران آتا ہے جیسا اس بار بہت گراں تر ہے ۔اس وقت چور اچکوں کا سب سے آسان نشانہ یہی گٹر کے ڈھکن ہوتے ہیں جو اکثر لوہے کے بنے ہیںمگر کچھ مدت ہوئی کہ لوہے کے بجائے اب سیمنٹ کے ڈھکن بننے لگے ہیں جو ڈھکن چوروںکے کسی کام کے نہیں ہوتے۔ مگر یہ ڈھکن جانے کس کے کام آتے ہیں کہ یہ بھی غائب ہونے لگے ہیںمگر افسوس ہے ان کباڑ والوں پر جو ان ڈھکن کو شکر کر کے خرید لیتے ہیں۔ویسے بھی کباڑ میں تو کوئی بھی چیز بیچی جا سکتی ہے جو کسی شہری کے کسی بھی کام آ سکتی ہے ۔ اس لئے یہ کہنا کہ یہ سیمنٹ کے گول بلاک بھلا کس کام کے ہوںگے بیکار بات ہے۔ایک سروس روڈ پر آٹھ ڈھکن تھے جن میں ایک بھی نہ رہا ۔لوہے کے چور ان کو لے جاکر کباڑ میں بیچ آئے اور اپنے نشے کے پیسے پورے کر لئے مگر معلوم بھی تو نہیں ہوتا کہ آخر یہ کس وقت آ کر ڈھکن اکھاڑتے ہیں اور ظاہر ہے کہ خالی ہاتھوں سے تو نہیں کھینچتے ہوں گے کوئی نہ کوئی ہتھوڑی پلاس وغیرہ ساتھ لاتے ہوں گے مگر کون ان ڈھکنوںکی حفاظت کرے ہر ڈھکن کے ساتھ ایک پہرہ دار تعینات ہو جائے ایسا بھی تو ممکن نہیں ۔جس جا کی میں بات کر رہاہوں وہا ںآخر کار سیمنٹ کے بڑے ڈھکن لگا دیئے گئے اور وہ اتنے وزنی ہیں کہ ان کو چرانا ایک آدمی کے بس کا کام نہیں ہے۔سو وہ اس وقت تک تو موجود ہیں مگر کسی وقت جب نشے کی سگریٹ کے پیسے کہیں سے ہاتھ نہ آئے دو ایک آدمی مل کر ان پر بھی ہاتھ ڈالیں گے ۔باقی رہیں وارداتیں جو موبائل وغیرہ کے حوالے سے ہیں وہ بھی تیز ہو چکی ہیں کیونکہ ہر چیز جب گرانی کی طرف مائل بہ پرواز ہے تو یہ کام پھر ہونا ہیں۔بلکہ میں کہوں گٹر کی چوری کا معاملہ وائرس کی طرح گلی گلی کوچہ کوچہ پھیل چکا ہے۔پشاور تا کراچی یہ سلسلہ دراز ہو چکا ہے بلکہ ان کھلے مین ہول میں بچوں کے گرنے کے واقعات بھی ہو رہے ہیں۔اصل میں ہمارے پورے ارضِ وطن کا انفرا سٹرکچر ہی درست نہیں ہے ۔بجلی کی تاریں ہیں گلی گلی میں سروں سے ٹکرارہی ہیں اور اب سے نہیں‘طویل عرصہ سے ایسا ہے ۔مگر کسی سرکاری افسر کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔کتنے بچے ان تاروں سے ٹکرا کر جان گنواچکے ہیں۔بجلی کے کرتا دھرتا¶ں کو بجلی کے بھاری بلوں کے بھیج دینے سے سروکار ہے ۔ان کو احساس نہیں ہے کہ جہاں بجلی کی تاریں جھول رہی ہیںوہاں بھی جا کر تاروں کو درست کریں۔سر کے اوپر لٹکتی تاروں کی پروا نہیں تو نیچے پا¶ں میں آتے ہوئے گٹروں کے ڈھکنوں کا بھی خیال نہیں۔اس کے لئے تو بہت بڑے فنڈ کی ضرورت ہے ۔انفرا سٹرکچر کے نام پر کیا کیا کچھ ہے جس کی مرمت کی ضرورت ہے ۔مگر کسی کی توجہ اگر ہو تو کتنا اچھا ہو لیکن نہیں ہوگی ۔برسہا برس بیت گئے جو چیزیہاں ٹوٹ جاتی ہے وہ یونہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتی ہے۔جب سے ہوش سنبھالا ہے سڑکوں میں گڑھے ہیں یا خود سڑکیں ہیں ٹوٹتی توجلدی ہیں مگر بنتی بہت دیر سے ہیں اتنی دیر سے کہ گویا” تم کو ہم خاک نشینوں کا خیال آنے تک ۔شہر تو شہر بدل جائیں گے ویرانے تک “۔ پھر غالب کا وہ شعر ” ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن ۔خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبرہونے تک“پھر اسی غزل کا ایک اور شعر ”آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک ۔کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک“۔تاریں سروں پر جھول رہی ہیں مین ہول کھلے ہوئے ہیں کھڈے سڑکوں پر شہریوں کا منہ چڑا رہے ہیں۔ بلوں کے لئے تو یہ لوگ سڑکوںپر نکل آئے مگر ان گٹروںکے ڈھکنوں کی رکھوالی کا بندوبست تو آسان ہے۔کباڑوالوں کو چاہئے کہ ڈھکن لے کرآنے والوں کو پولیس کے حوالے کر دیں۔کیونکہ اب تک چند ماہ میں بہت سے معصوم بچے ان گٹروںمیں گر کر اپنی جان سے جا چکے ہیں۔پھر دوسری بات یہ بھی ہے کہ ماں باپ کو خود پروا نہیں ہوتی کہ بچے کہاں گئے کہاں کھیل رہے ہیں ۔یہاں تو ایک جوان بچہ ہے جو شام کو دیرلگا دے تو ماں برقعہ پہن کر اسے گلی گلی ڈھونڈتی ہے اور کہیں نہ کہیں سے اسے اس کے کسی دوست کے پاس سے چھین کر گھر لے آتی ہے۔بس بچے کو پیسے دیئے اور وہ باہر چلا گیا معلوم نہ کیا کہ کس دکاندار کے پاس گیا ہے اور اتنی دیرکیوں لگا دی ہے ۔کیونکہ بچے تو بچے ہیں اپنی جان کے دشمن خود ہوتے ہیں۔