(روپے کی) قدر میں کمی

یہاں ان ممالک کی جزوی فہرست ہے جہاں کرنسی کی قدر میں کمی حالیہ تاریخ میں مختلف مقامات پر احتجاج کا محرک رہی ہے: ارجنٹائن‘ ترکی‘ وینزویلا‘ ایران‘ نائیجیریا‘ مصر‘ زمبابوے‘ یوکرین‘ لبنان‘ جنوبی افریقہ‘ برازیل‘ انڈونیشیا‘ میکسیکو‘ چلی‘ تیونس‘ سوڈان‘ بولیویا‘ ایکواڈور‘ پیرو‘ گھانا‘ اردن‘ ملائشیا‘ تھائی لینڈ‘ روس‘ ہیٹی‘ رومانیہ‘ گھانا‘ جارجیا‘ آذربائیجان‘ انگولا‘ تاجکستان اور سری لنکا۔ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر گرنے پر قیمتوں میں اضافہ ہونے والی اشیاءکی جزوی فہرست میں گندم‘ پیٹرول‘ ڈیزل‘ دال‘ بجلی‘ چائے‘ قدرتی گیس‘ پلاسٹک‘ مشینری‘ الیکٹرانکس‘ موبائل فون‘ آٹوموبائل‘ ادویات‘ کھانا پکانے کا تیل‘ کھاد اور کیمیکلز شامل ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے معاشی مشکلات‘ ملازمتوں اور اجرتوں میں کمی کی وجہ سے پاکستانیوں میں مایوسی پیدا ہو رہی ہے جو پہلے ہی اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ جیسے جیسے روپے کی قدر کم ہوتی ہے‘ لوگوں کی بچت‘ پنشن اور سرمایہ کاری کی قدر بھی کم ہو جاتی ہے‘ جس سے اُن کا معیار زندگی متاثر ہوتا ہے۔ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی پہلے سے کمزور پاکستانیوں کو غربت کی طرف دھکیل رہی ہے جس سے سماجی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے درآمدی اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے‘ جس سے افراط زر (مہنگائی) میں اضافہ ہوتا ہے اور بنیادی ضرورت کی اشیاءمہنگی ہوجاتی ہیں اور چونکہ قوت خرید میں کمی رہتی ہے اِس لئے عوام میں غم و غصہ پیدا ہوتا ہے۔ کرنسی کی قدر میں کمی کے نتیجے میں کاروبار بند ہو جاتے ہیں‘ سرمایہ کاری میں کمی ہوتی ہے اور ملازمتوں میں کمی واقع ہوتی ہے‘ جس کی وجہ سے بے روزگار مزدور معاشی استحکام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کو سیاسی فیصلوں سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ حکومت کا بجٹ خسارہ روپے کی قدر میں کمی لانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ یہ بجٹ خسارہ بذات خود سیاسی عزم کی پیداوار ہے۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے‘ حکومت قرض لیتی ہے‘ ایک ایسا اقدام جو بعد میں رقم کی فراہمی میں توسیع میں کردار ادا کرتا ہے‘ جس کے نتیجے میں بالآخر روپے کی قدر میں کمی واقع ہوتی ہے۔ مسلسل بجٹ خسارہ‘ جو دراصل ایک سیاسی فیصلہ ہے‘ نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو کم کیا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار ہمیشہ ایک ایسے ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے محتاط رہتے ہیں جس کا بجٹ خسارہ بہت زیادہ ہو۔ اعتماد کی یہ کمی سرمائے کی منتقلی کا باعث بن رہی ہے‘ جہاں سرمایہ کار پاکستان سے اپنی سرمایہ کاری واپس لے رہے ہیں۔ جیسے جیسے غیر ملکی کرنسی معیشت سے باہر نکلتی ہے‘ مقامی کرنسی کی طلب کم ہوجاتی ہے‘ جس کی وجہ سے اِس کی قدر میں کمی واقع ہوتی ہے۔ احتجاج کا موجب حکومت کے غلط مالیاتی انتظام کا الزام ہوتا ہے۔ احتجاج کے محرکات صرف کرنسی کی قدر میں کمی کے علاو¿ہ مختلف عوامل ہوسکتے ہیں۔ مزید برآں‘ احتجاج کا وقت اور شدت مقامی سیاق و سباق اور حکومتی ردعمل کی بنیاد پر وسیع پیمانے پر بھی مختلف ہوسکتا ہے۔ سیاسی ایجنڈے سے متاثر معاشی فیصلوں کے سنگین نتائج ہوتے ہیں اور بدامنی کے امکانات معاشی ہلچل سے الگ ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے‘ روزمرہ زندگی کے تانے بانے پر دباو¿ پڑ رہا ہے‘ جس سے عام پاکستانی پر ناقابل برداشت بوجھ پڑ رہا ہے۔ بچت ختم ہو چکی ہے‘ سرمایہ کاری کی قیمت ختم ہو چکی ہے اور ایک محفوظ مستقبل کے خوابوں کی جگہ غیر یقینی اور خوف نے لے لی ہے۔ عدم اطمینان کی لہر ابھر رہی ہے اور احتجاج اور سماجی بدامنی کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ اِس موقع پر نگران حکومت کو تین اہم کام کرنے چاہئیں۔ سب سے پہلے‘ اسے بجٹ خسارے کو مو¿ثر طریقے سے منظم کرکے اور قرضوں پر انحصار کو کم کرکے مالی نظم و ضبط کو ترجیح دینی چاہئے۔ یہ نقطہ نظر روپے پر دباو¿ کم کرے گا اور اس کی کمزوری کو کم کرے گا۔ دوسرا‘ حکومت کو معاشی مسابقت کو بڑھانے‘ غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور برآمدات میں اضافے کے مقصد سے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے نفاذ کے لئے فعال اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس طرح کے اقدامات ہمیشہ روپے کی قدر میں اضافے میں معاون ثابت ہوں گے۔ آخر میں‘ ایک ہم آہنگ کوشش ضروری ہے‘ جس کے لئے مالیاتی اور تجارتی پالیسیوں کے درمیان ہموار ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ یہ مربوط لائحہ عمل کرنسی کا استحکام بھی لائے گا‘ جس کی اپنی جگہ شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)