اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کے 14ویں اجلاس کے دوران ’26 اکتوبر 1966ئ‘ کے روز ’خواندگی کا عالمی دن‘ منانے کا فیصلہ کیا گیا اور اِس مقصد کے لئے ’8 ستمبر‘ کے دن کا انتخاب کیا گیا جس کے بعد پہلا عالمی یوم خواندگی 1967ءمیں منایا گیا تھا۔ یونیسکو کی ویب سائٹ (unesco.org) پر جاری کئے گئے خواندگی کے عالمی کی مناسبت سے پیغام میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی آٹھ ارب آبادی میں کم سے کم76 کروڑ 30 لاکھ لوگ ناخواندہ ہیں اور اِس قدر بڑی تعداد میں ناخواندگی کی وجہ کورونا وبا‘ موسمیاتی تبدیلی اور تنازعات ہیں۔ رواں برس خواندگی کے عالمی دن کا موضوع ”خواندگی کا فروغ‘ پائیدار اور پرامن معاشروں کی بنیاد اور تعمیر“ رکھا گیا ہے۔خواندگی کسی ملک و قوم کے لئے ’ترقی کی کلید‘ ہے اور عالمی یوم خواندگی کا یہ پیغام اُجاگر کرنے کا مقصد دنیا کی توجہ اِس جانب مبذول کروانا ہے کہ بنا تعلیم قومی ترقی ممکن نہیں ہوتی۔ یہ ایک ایسا جامع پیغام ہے جس پر پاکستان کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے اگرچہ اِس بات پر وسیع اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ خواندگی وہ بنیاد ہے جس پر کسی معاشرے علم کی تعمیر ہوتی ہے اور اِسی وجہ سے تنقیدی سوچ کو فروغ ملتا ہے جس کی وجہ سے وہ ترقی حاصل ہوتی ہے جو معاشرے میں اطمینان پھیلانے کا باعث ہو لیکن گزشتہ صدی میں تعلیم کے شعبے میں نمایاں ترقی کے باوجود‘ دنیا بھر میں حیران کن تعداد ناخواندہ ہے یا اِسے معیاری تعلیم تک محدود رسائی حاصل ہے۔ پاکستان کو خواندگی کی راہ میں حائل رکاوٹی دور کرنے کے لئے سخت محنت کرنی ہوگی کیونکہ یہ جنوبی ایشیا کا واحد ایسا ملک ہے جہاں خواندگی کی شرح اگرچہ ساٹھ فیصد بتائی جاتی ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں اور خواتین میں خواندگی کی شرح خود حکومتی اعدادوشمار کے مطابق پچاس فیصد یا اس سے بھی کم ہیں۔ دیگر ممالک کی ترقی کرنے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کے پاس تربیت یافتہ افرادی قوت موجود ہے۔پاکستان کو شرح خواندگی کے تحفظ کا مسئلہ درپیش ہے جس سے نمٹنے کی کوششیں خاطرخواہ کامیاب نہیں ہو رہیں اُور ایسا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ شرح خواندگی میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اُور عوام کو درپیش معاشی مسائل خواندگی کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ایک ایسی صورتحال جس میں معاشی صورتحال بھی مثالی نہیں‘ اِس بات کی توقع کرنا کہ خواندگی میں اضافہ ہوگا عملاً ممکن نہیں۔ خواندگی ایک قیمتی جنس ہے جس کے تحفظ اور جس کے فروغ کے لئے کوششوں کو مربوط اور عوام کو مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ خواندگی کے فروغ کے لئے حکومت کو مناسب وسائل مختص کرنے‘ اساتذہ کی تربیت میں اِضافے اور تعلیمی مواد کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر تعلیم اور معیاری تعلیم حکومتی ترجیحات کا حصہ ہوں تو اِس کے خاطرخواہ بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے ساتھ ریاست کو بھی ڈیجیٹل دور کی بدلی ہوئی ضروریات کے مطابق ڈھلنا چاہئے۔ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ طلبہ ڈیجیٹل اور روایتی خواندگی کی مہارتوں سے لیس ہوں۔ پسماندہ برادریوں کو سستے انٹرنیٹ تک رسائی اور ڈیجیٹل آلات فراہم کرنے کی کوششیں ضروری ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانا بھی یکساں ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی خواندگی کو فروغ دینے میں معاون ہے‘ نہ کہ رکاوٹ۔ خواندگی صرف بچوں کو تعلیم دینے کا نام نہیں ہوتی بلکہ یہ معاشرتی اور سماجی طرز زندگی میں بہتری کے سفر کا نام ہے۔ بالغوں کے سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھنے کی ترغیب دینا اور ان کی خواندگی کی صلاحیتوں کو بہتر بنانا بھی یکساں ضروری ہے۔ خواندگی ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لئے اکثر بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ممالک خواندگی کو فروغ دینے میں ایک دوسرے کی کامیابیوں اور چیلنجوں سے سیکھ سکتے ہیں اور وسائل و بہترین طریقوں کے اشتراک سے سیکھ بھی سکتے ہیں۔ ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی (8 ستمبر کے روز) جب خواندگی کا عالمی دن منایا جائے تو اِس موقع کو روایتی سرگرمیوں کی بجائے اُن زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھا جانا چاہئے جن کی وجہ سے خواندگی کے تحفظ اور اِس میں اضافے سے متعلق اہداف حاصل نہیں ہو رہے۔