ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے والے عوامل

ملک میں چینی کا نرخ آسمان سے باتیں اس وجہ سے کرتا ہے جب ملک میں بننے والی چینی کو وافر مقدار میں بر آمد کر دیا جاتا ہے اور پھر جب ملک میں چینی کی کمی ہوتی ہے تو بھاری زرمبادلہ خرچ کر کے چینی کو درآمد کیا جاتا ہے۔ اس پالیسی سے نہ صرف یہ ہوتا ہے کہ ملک میں چینی کی قلت پیدا ہو جاتی ہے اس کے دام بھی زیادہو جاتے ہیں۔ اب تو وطن عزیز کے عوامی حلقوں میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ جن لوگوں نے مختلف حیلوں اور حربوں سے چینی کو مہنگا کرکے کمانے کا راستہ اختیار کیا ہے ان پر ایف بی آر ونڈ فال ٹیکس windfall tax لگا کر ان سے وہ رقم ریکور کرے جو انہوں نے راتوں رات کمائی ہے ۔ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد ذکر کریں گے چند دیگر تازہ ترین ملکی اور عالمی معاملات کا چینی صدر کا یہ فیصلہ کہ وہ بھارت میں چند روز بعدہونے والی جی20 ممالک کے سربراہ کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے بھارت کی ڈپلومیسی کے لیے ایک 
بڑے دھچکے سے کم نہیں ہے۔دوسری طرف امریکی صدر کا کہنا ہے کہ وہ اس خبر سے بہت مایوس ہوئے ہیں کہ چینی صدر شی جن پنگ جی 20 میں شرکت کے لئے بھارت نہیں آئیں گے۔ ڈیلاویئر میں صحافیوں نے جب جو بائیڈن سے پوچھا کہ اطلاعات ہیں کہ چینی صدر شی جن پنگ جی 20 کے سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں، تو انہوں نے کہا، ''میں مایوس ہوں، لیکن میری ان سے ملاقات ہو گی۔تاہم بائیڈن نے یہ نہیں بتایا کہ چینی صدر سے وہ آئندہ کہاں ملاقات کر نے والے ہیں۔ اگر چینی صدر اس ہفتے کے اواخر میں دہلی نہیں آتے ہیں، تو بائیڈن اور شی جن پنگ کی ملاقات نومبر میں ہو سکتی، کیونکہ امریکہ اس وقت سان فرانسسکو میں اے پی ای سی کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہو گا۔امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان آخری بار نومبر میں انڈونیشیا کے بالی میں جی 20سربراہی اجلاس کے موقع پر بات چیت ہوئی تھی۔امریکہ اور چین کے درمیان تائیوان سمیت متعدد مسائل کے حوالے سے بنیادی اختلاف پائے جاتے ہیں۔ اس میں جزیرہ تائیوان کا دورہ کرنے والے امریکی قانون سازوں اور تائیوان کے صدر کے دورہ امریکہ کے علاوہ سیمی کنڈکٹر کی ٹیکنالوجی پر بھی اختلافات ہیں۔ اس کے علاوہ بائیڈن انتظامیہ کی چینی برآمد پر پابندیاں، کیوبا کی سرزمین سے چینی نگرانی کے 
بارے میں اطلاعات اور غبارے کا واقعات جیسے امور پر دونوں میں کشیدگی پائی جاتی ہے ۔جہاں تک چین کے صدر کے بھارت میں جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس میں شرکت سے انکار کا تعلق ہے تو یہ اس حوالے سے بھارت کیلئے شدید دھچکہ ہے کہ اس سے قبل روس کے صدر پیوٹن بھی اس اجلاس میں شرکت سے انکار کر چکے ہیں۔ اس میں اب کوئی شک نہیں کہ چین اور روس کے درمیان خوب انڈرسٹینڈنگ ہے اور دوسری طرف بھارت اب چین اور روس کی بجائے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے قریب جا رہا ہے ‘اس لئے تو امریکی صدر سمیت یورپی ممالک کے سربراہان اس اجلاس میں شریک ہوں گے دوسری طرف روس اور چین نے اس میں سربراہوں کی سطح پر شرکت سے انکار کر دیا ہے ۔اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس اجلاس میں دو اہم ترین ممالک کے شرکت نہ کرنے کے کیا اثرات سامنے آئیں گے۔