پاکستان میں معذور افراد (PWDs) کی تعداد درست طریقے سے (کماحقہ) شمار نہیں کی جا رہی ہے۔ یہ بڑا مسئلہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق معذور افراد کی آبادی میں شرح آبادی کے تناسب سے اِضافہ نہیں ہو رہا۔ ہر مردم شماری کے اختتام پر آبادی بڑھنے کی خبر دی جاتی ہے لیکن سرکاری اعدادوشمار میں معذور افراد کی تعداد پہلے سے کم ہو رہی ہے۔ 1998ءمیں افراد باہم معذوری 2.38 فیصد تھی جو 2017ءمیں کم کر 0.48 فیصد رہ گئی اور یہ بہت ہی واضح فرق ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ تمام افراد باہم معذور کو شمار ہی نہیں کیا جاتا۔ پی ڈبلیو ڈیز اپنے طور پر اندراج نہیں کروا سکتے کیونکہ اُنہیں گنتی میں دشواری ہوتی ہے کیونکہ ایسے افراد اچھی طرح سے سن یا بول نہیں سکتے اور یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ معذوری رکھتے ہوں لیکن اُسے بیان کرنے کا شعور نہیں رکھتے۔ مردم شماری کے دوران اشاروں سے بات کرنے (سائن لینگویج مترجم) والوں کی خدمات حاصل نہیں کی گئیں‘ جس کی وجہ سے ان کا شمار کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ چند معذوری کی حالتیں ایسی ہیں کہ اُن میں بالکل بھی نظر نہیں آتا‘ یا پھر تھوڑا بہت نظر آتا ہے اور ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جن میں معذور افراد کو خود بھی اِس بات کا علم یا احساس نہیں ہوتا کہ وہ معذور ہیں اور اِسی وجہ سے مردم شماری جیسے کلیدی عمل میں بہت سے پی ڈبلیو ڈیز شمار
سے رہ جاتے ہیں۔ معذور افراد کو قومی شناختی کارڈز میں خصوصی حیثیت دی جاتی ہے اور وہ خصوصی قومی شناختی کارڈز حاصل کرسکتے ہیں جسے خصوصی شناختی کارڈ کہا جاتا ہے۔ یہ کارڈ بہت اہم ہے کیونکہ یہ آپ کو تعلیم‘ صحت کی دیکھ بھال اور ملازمتوں جیسے مواقع حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ معذور افراد کے لئے خصوصی شناختی کارڈ حاصل کرنے کا عمل آسان نہیں۔ ایسے معذور افراد جنہیں بولنے میں دقت ہوتی ہے یا وہ ایک خاص قسم کی بیماری ’آٹزم‘ کا شکار ہوتے ہیں‘ اُنہیں ’خصوصی کارڈز‘ حاصل کرنے میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ خصوصی افراد کو خصوصی قومی شناختی کارڈز جاری کرنے کے عمل کو آسان بنایا جائے۔ معذور افراد معاشرے پر بوجھ نہیں بلکہ انہیں معاشرے کا جز سمجھ کر اِن کے حقوق کی ادائیگی میں دلچسپی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ معذور افراد دنیا کی پندرہ فیصد آبادی پر مشتمل ہیں جبکہ پاکستان میں معذور افرادکی تعداد تین یورپی ممالک (سوئیڈن‘ آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ) کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے لیکن یہ افراد اپنے حقوق سے محروم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اِن خصوصی افراد کو بہت سے مسائل و مشکلات کا سامنا ہے جنہیں حل کرنے کے لئے حکومت کو غیرسرکاری تنظیموں کے تجربات سے فائدہ اُُٹھاتے ہوئے ایک مربوط قومی لائحہ عمل تشکیل دینا چاہئے۔اس حوالے سے عوام میں آگہی اور شعور کو بڑھاواد ینے کی بھی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں موجود معذور افراد کو ان کی حیثیت اور مقام کی مناسبت سے سہولیات اور آسانیاں مہیا کرنے کاعمل تیزی سے جاری رہے۔ ہمارے ہاں معذور افراد کی خصوصی حیثیت کو جاننے اور ان کو ہر شعبہ زندگی میں اس کی مناسبت سے اہمیت دینے کی کمی ہے اس کمی کو جلد از جلد پورا کرنا ضروری ہے ۔ یہ وہ راستہ ہے جس پر دیگر ترقی یافتہ ممالک بہت دور نکل گئے ہیں اور وہاں پر معذور افراد کو محض نام سے سپیشل پرسن نہیں بلکہ حقیت میں ایک خاص شہری کی حیثیت حاصل ہوتی ہے جس کا اظہار عملی طور پر ہر لمحہ ہوتا ہے۔ وہاں پر ٹرانسپورٹ کا شعبہ ہو یا پھر دیگر عام زندگی کی ضروریات کا مرحلہ، خصوصی افراد کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے ۔اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے ہاں بھی اس طرف بھرپور توجہ دی جائے تاکہ خصوصی افراد کو حقیقی معنوں میں اپنے خاص ہونے کا احساس دلایا جا سکے۔