موسمیاتی تبدیلی جوبن پر 

 آئیے آج کے کالم کا آغازہم ان چند غلط العام الفاظ کے ذکر سے کریں کہ جن کی طرف قارئین کی توجہ شاذ ہی جاتی ہے لفظ لالچ مذکر ہے لیکن اسے غلط العام کی مد میں مونث استعمال کیا جا رہا ہے مثلاً یہ لکھنا غلط ہے کہ لالچ تم کو نقصان پہنچائے گی اس فقرے کی صحیح صورت یہ ھے لالچ تم کو نقصان پہنچائے گا ‘جل تھل ہو گیا‘ بے معنی اور غلط ہے‘ صیح جملہ ہے جل تھل ایک ہو گیا کیونکہ جل کا مطلب پانی اور تھل مطلب خشک زمین ہے اسی طرح آس پڑوس لکھنا غلط ہے اسے پاس پڑوس لکھنا چاہیے کسی بات کے سمجھ نہ آنے کے لئے یہ فقرہ لکھنا غلط ہے کہ سمجھ نہیں آتی سمجھ میں نہیں آتا لکھنا صحیح اور فصیح ہے لفظ بجائے کو عموماً مونث لکھا جاتا ہے بجائے چونکہ مذکر ہے لہٰذا کی بجائے کی جگہ کے بجائے لکھنا زیادہ مہذب اور شائستہ ہے‘ برا منانا کسی کی ناراضی دور کرنے یا پھر جشن منانے کےلئے استعمال ہوتا ہے برا منانا کے بجائے برا ماننا صحیح اور فصیح ہے‘ازراہ انکسار میری ناقص رائے میں بڑی فراوانی سے استعمال ہوتا ہے جو غلط ہے ‘مناسب فقرہ یہ ہے میری ناچیز رائے میں یا میری عاجزانہ رائے میں‘قابل گردن زدنی میں قابل کے معنی از خود شامل ہیں اس لئے صرف گردن زدنی لکھنا کافی ہے اہل اردو نے صاحبہ کو صاحب کی تانیث بنا لیا ہے یہ لفظ عموماً خواتین کے نام یا عہدوں کے ساتھ لاحقے کے طور پر استعمال ہوتا ہے مثلاً پرنسپل صاحبہ محترم سے محترمہ تو جائز ہے لیکن صاحب سے صاحبہ خاصا گراں گزرتا ہے لفظ مزاج پرسش احوال کی نسبت سے واحد کے بجائے جمع بولا جاتا ہے‘ جوش صاحب کا اعتراض تھا کسی کا مزاج تو ایک ہی ہوتا ہے پھر مزاج کیسے ہیں لکھنا بے معنی ہے نظریں چار ہونا کوئی محاورہ نہیں بلکہ آنکھیں چار ہونا درست محاورہ ہے۔ اب تو بھادوں کا مہینہ بھی اختتام پذیر ہونے والا ہے پر ساون ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا‘ امسال موسمیاتی تبدیلی نے واقعی اپنا جوبن دکھایا ہے ساون کا مہینہ کافی طولانی ہو گیا ہے ‘ جعلی شناختی کارڈ بنانے کے دھندے میں ملوث نادرا کے کچھ اہلکار پکڑے گئے ہیں ‘اس محکمے کے جو اہلکار اس جرم میں ملوث ہیں وہ کسی بھی رعایت یا نرمی کے مستحق نہیں ہیں اس قسم کے جرائم میں کمی اسلئے واقع نہیں ہو رہی کہ یا تو ملزمان اپنے خلاف کمزور مقدمات بنوالیتے ہیں یا پھر وہ سیاسی مداخلت کے ذریعے قید بامشقت سے اپنے آپ کو بچا لیتے ہیں ‘ ایک پرانا محاورہ ہے کہ ڈنڈا علاج ہے بگڑے تگڑوں کا‘ اس کی صداقت کا ثبوت ہمیں روزانہ کہیں نہ کہیں دکھائی دیتا ہے‘ چینی کی قیمتیں پچھلے دنوں ذخیرہ اندوزوں کی کارستانیوں سے آسمان سے باتیں کر رہی تھیں پر جوںہی ذخیرہ اندوزوں کو حکومت نے آنکھیں دکھائیں اور ان کے خلاف ایک ہلکی سی کاروائی کی تو قیمتیں گر پڑیں ۔نیا نیا پاکستان بنا تھا چوک یادگار پشاور میں اس وقت کے ایک سابق وزیر اعلیٰ جلسے سے خطاب کر رہے تھے کہ اچانک جلسہ گاہ سے آواز آئی کہ چینی کی قلت ہے اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف پولیس کوئی ایکشن نہیں لے رہی ‘اس پر وزیر اعلیٰ نے لوگوں سے مخاطب ہو کرکہا کہ آپ کو اجازت ہے کہ آپ کو جہاں ذخیرہ کی گئی چینی کے گودام نظر آئیں آ پ لوٹ لیں اور پولیس آپ کے خلاف کوئی پرچہ نہ دے گی ‘دوسرے دن صوبہ بھر میں200چینی سے ذخیرہ کئے گئے گودام لوٹ لئے گئے‘ اس کے بعد باقی ذخیرہ اندوز از خود اپنی چینی مارکیٹ مین لے آئے۔