ایبٹ آبادکی ایلزبتھ جیمز

 ایلزبتھ جمیز سے میری شناسائی” آج“ اخبار کی مرہون منت ہے‘ اسکو آج اخبار اور اس کے کالم پسند ہیں یوں ایک رشتہ دار کی وساطت سے رابطہ ہوا‘ اور پھر اسکی حیران کر دینے والی کہانی مجھے یہ لائنیں لکھنے پر مجبور کر گئی بعض لوگ بہت خاص ہوتے ہیں ۔ ایلزبتھ کہتی ہے کہ جب 2005ءکا زلزلہ آیا تو ایبٹ آباد بھی پوری طرح بربادی کی نذر ہوا‘ میں اپنی سکول کی سرکاری ڈیوٹی کیساتھ ساتھ زلزلہ زدگان کی امداد اور فلاح و بہبود کے کاموں میں لگ گئی‘ اس دوران نہ صرف ایبٹ آباد بلکہ ناران‘ کاغان کے تمام علاقے اور ان کی تباہی و بربادی میری نظروں سے گزری یہ وہ وقت تھا کہ جب اس تباہ کن زلزلے کی وجہ سے بے شمار بین الاقوامی تنظیمیں بھی شمالی علاقوں میں فلاحی کاموں میں مشغول ہوگئیں مجھے بھی شامل کردیاگیا‘ اور پھر میں ہر روز وہ مناظر اور وہ غم و اندوہ دیکھتی جو عام انسان کی نظر سے دور تھے تمام گھر ملیامیٹ ہوچکے تھے ان کے مکین ملبوں تلے دبے ہوئے تھے ہزاروں بچے ایسے تھے جو زندہ رہ گئے تھے لیکن ان کا خاندان ہمیشہ کیلئے آنکھیں موند چکا تھا۔ ایلزبتھ جیمز نے تین سال تک مختلف تنظیموں کیساتھ مل کر فلاحی کاموں میں حصہ لیا اور پھر اس کے دماغ میں یہ خیال کوندا کہ یتیم بچوں کیلئے حکومت نے بہت کچھ کیا ہے لیکن مجھے انفرادی طور پر بھی اپنی کمیونٹی کے بچوں کیلئے کچھ کرنا ہے بس اس ایک خیال نے مجھےHOH ”ہاﺅس آف ہوپ“ یعنی امیدوں کا گھر بنانے پر مجبور کر دیا میں نے فلاحی کام کو مکمل کرنے کا بیڑہ اٹھایا چھوٹے سے کرائے کے مکان میں ایچ او ایچ کا آغاز کر دیا گیا اس وقت مجھے قطعاً علم نہ تھا کہ یتیم بچوں کی ذمہ داری میں نے اٹھاتو لی ہے میں کس طرح اتنے پیسوں کا انتظام کرونگی کہ ان یتیم بچوں کو تین وقت کا کھانا‘ اچھا کپڑا اور اچھی تعلیم دونگی ۔ساتھ ہی ساتھ ان کی صحت صفائی‘بیماری سستی میں ان کو اچھا علاج معالجہ دے سکونگی لیکن میں تہیہ کر چکی تھی کہ جن معصوم بچوں سے ان کے ماں باپ خاندان چھن گیا ہے۔ پھر میں نے کرائے کے مکان کے اوپری حصے کو میں نے ان بچوں کی قیام گاہ میں بدل دیا‘ اور پھر ” قافلے آتے گئے اور کاروان بنتا گیا۔ میرے دوستوں رشتہ داروں اور ساتھیوں نے میرے اس امیدوں بھرے گھر کو اپنے عطیات سے بھردیا ۔میں نے گھر کی نچلی منزل پر سکول کھول دیا جہاں یتیم بچے بھی پڑھنے لگے اور صاحب حیثیت بچے بھی سکول آکر داخل ہوگئے ۔باہر سے آنے جانے والے طالب علم اپنے گھروں سے آکر معمولی فیس کے عوض پڑھتے تھے ان کی فیس بھی ہمارےHOH کیلئے آمدنی کا بڑا ذریعہ بنتی گئی کچھ اساتذہ اور بھی امید بھرے سکول میں پڑھاتے ہیں کچھ سکول کا بورڈ آف ٹرسٹی ہے لیگل ٹیم ہے میڈیکل ٹیم ہے اور یہ تمام وہ لوگ ہیں جو رضاکارانہ طورپر اپنی خدمت ادارے کو دیتے ہیں ۔ایلزبتھ بتا رہی تھی کہ رات کا وقت تھا تمام یتیم بچوں کو گیسٹرو ہوگیا ابھی میں سوزوکی اور ہسپتال کے اخراجات کا تخمینہ ہی لگا رہی تھی کہ ایک فون کال آگئی اور پھر اس خدا کے بندے نے الخدمت فاﺅنڈیشن کے ذریعے ایمبولینس بھیج کر بچوں کا تمام علاج معالجہ مفت میں کروادیا‘HOH کو قائم ہوتے ہوئے16برس بیت گئے ہیں ان 16برسوں میں کئی یتیم بچے تعلیم حاصل کرکے برسرروزگار ہوگئے لیکن ابھی بھی بے شمار یتیم بچوں کے اخراجات پورے کرنے کیلئے فنانس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایلزبتھ جمیز کی اس ادارے کو لے کر ایک شدید خواہش ہے کہ کاش کوئی ایسا نیک بندہ زمین کا ایک ٹکڑاHOH کو دے دے جس پر عمارت بنائی جا سکے اور یتیم بچوں کیلئے ایک مستقل گھر بن سکے تاکہ کرائے سمیت ہر قسم کا ڈر خوف ختم ہو جائے اور طمانیت آجائے کہ اپنا گھر ہمیشہ سکون کا احساس دلاتا ہے۔