ٹیکسوں کی چوری 

اگر پارلیمان جیسے مقتدر اداروں کے اراکین کا یہ حال ہو کہ وہ بجلی کی چوری کے مرتکب پائے جائیں تو پھر کس سے کوئی کیا گلہ کرے‘ پر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بجلی چوری نہیں کر سکتا ‘لہٰذا بجلی کے محکمے میں پس پردہ بیٹھی ہوئی چند کالی بھیڑوں کو بھی بے نقاب کر کے سنگین ترین سزا دینا ضروری ہو گا۔ تمام محب وطن لوگوں کو یہ جان کر دکھ ہوا کہ وطن عزیز میں جو افراد بجلی کی چوری کے مرتکب پائے جا رہے ہیں ان میں کچھ بڑے بڑے صنعت کار بھی شامل ہیں اور جاگیردار اور زمیندار بھی،110 ارب روپے کی چوری کوئی معمولی چوری نہیں ہے بجلی کے محکمے کو چاہیے کہ بجلی کے تمام چوروں کے فوٹو اخبارات میں شائع کرائے اور الیکشن کمیشن کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ یہ اعلان کر دے کہ یہ افراد اب کسی صوبائی قومی اسمبلی اور سینٹ کا الیکشن آئندہ دس برسوں تک لڑ نہیں سکتے اسی قسم کا سلوک ان افراد کے ساتھ بھی روا رکھا جائے کہ جو دیگر سرکاری ٹیکسوں کی چوری بھی کرتے ہیں جیسا کہ انکم ٹیکس ویلتھ ٹیکس وغیرہ وغیرہ‘ اس ملک کو اشرافیہ نے دونوں ہاتھوں سے خوب لوٹ لیا ہے اب وقت آ گیا ہے کہ ان سے پائی پائی کا حساب لیا جائے اور انکے دوبارہ ایوان اقتدار میں آنے کے تمام راستے روکے جائیں کہ جن کے طفیل وہ سرکاری وسائل کو مفت کا مال سمجھ کر اس پر اللے تللے کرتے آئے ہیں۔ بھارت میں ہونے والی جی 20 سربراہان کانفرنس روس اور چین کے رہنماوں کی عدم شرکت سے نہ صرف یہ کہ پھیکی پھیکی ہو گئی اس میں لئے گئے فیصلے بھی شاید اتنے موثر ثابت نہ ہوں کہ جو روس اور چین کی شرکت کی وجہ سے ہو سکتے تھے اس اجلاس میں ایندھن کے کم استعمال کا فیصلہ نہ ہو سکا مختلف آ راءکے پیش نظر وزارتی اجلاسوں میں کوئی معاہدہ نہ ہو سکا روس نے الزام لگایا ہے کہ مشرقی یوکرائن میں ہونے والے الیکشن کو ڈھونگ قرار دینے کے بعد امریکہ اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔طورخم بارڈر پر اگر موجودہ کشیدگی برقراررہی تو درآمدی محصولات کی مد میں حکومت کو بہت بڑا نقصان ہو گا اس لئے اس قضیہ کو فوری حل کرنا ملک کے معاشی مفاد میں ہے۔آئے دن سرکاری سڑکوں پر دھرنوں کی سیاست نے خلقت خدا کے ناک میں دم کر دیاہے ان دھرنوں کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک کی جو بندش ہوتی ہے اس سے کئی جان لیوا بیماریوں میں مبتلا افراد بر وقت ہسپتال نہیں پہنچ پاتے کئی طلبا امتحان کے ہال میں پرچہ دینے کے لئے وقت مقررہ پر پہنچ نہیں سکتے قصہ کوتاہ یہ روز روز کے دھرنے ایک road nuisance سڑک پر پریشان کن سفر کی صورت اختیار کر چکے ہیں جو بات عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہے وہ یہ ہے کہ کیوں ہمارے سیاسی قائدین باہمی اتفاق سے اپنے اپنے سیاسی مطالبات کو اجاگر کرنے کے لئےہر شہر میں متفقہ طور پر کسی جگہ کا انتخاب نہیں کر لیتے کہ جہاں وہ اپنے احتجاج رجسٹرڈ کرایا کریں‘ بجائے اس کے کہ وہ سڑکوں پرہجوم کو جمع کر کے خلقت خدا کو سفری تکلیف میں مبتلا کریں ۔