خا تون کی جوانمر دی 

 خیبر پختونخوا میں ہائیر ایجو کیشن کی جوانمرد خاتون پرو فیسر مرحومہ گل حمیرہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیںکیونکہ وہ اگر چہ اس دنیا میں نہیں ہیں تاہم ان کے تذکرے اب بھی کسی نہ کسی حوالے سے ہوتے رہتے ہیں۔ وہ جس کا لج میں گئی وہاں جواں مر دی کا مظاہر ہ کر کے میرٹ کی با لا دستی کو یقینی بنا نے پر اس نے پوری توجہ دی اس راہ میں آنے والے سیا ستدانوں اور با لا ئی افسروںکی پرواہ نہیں کی ایک سر کاری عما رت کو قابضین سے خا لی کرانے کے لئے انہوں نے اس وقت کے گورنر جنرل افتخارحسین شاہ اور ڈائیریکٹر تعلیمات ڈاکٹر عبدا لرﺅف کا تعاون حاصل کیا مقا می لو گ ا س کو نا ممکن خیا ل کرتے تھے مگر انہوں نے ممکن کرکے دکھا یا کیونکہ یہ عما رت گر لز کا لج کے لئے بیحد مو زوں تھی کہا نی دلچسپ بھی ہے اور پر تجسس بھی ہے گل حمیرہ کے دادا مرزاعافیت بیگ نے چترال کی سابق ریا ست سے تر ک وطن کر کے غیر منقسم ہندوستان کے شہر مدراس میں سکو نت اختیار کی قیام پا کستان کے بعد ان کے وا لدین نے ملتان میں گھر بسا یا۔ بہا ءالدین ذکریا یو نیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے بعد اپنے آبا ئی گاﺅں چترال پہنچ گئیںڈو میسائل حا صل کیا اور خیبر پختونخوا کے ہائیر ایجو کیشن ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرر شپ کے لئے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پا س کیا ۔زون نمبر 3کا سیٹ اپنے نا م کرنے کے بعد ملا کنڈ ڈویژن کے ضلع سوات سے ملا زمت کا آغاز کیا کیونکہ ان کے آبا ئی ضلع چترال میں کوئی زنا نہ کا لج نہیں تھا ان کے والد گرامی بلبل بیگ کا اصرار تھا کہ بیٹی اپنے آ با ئی ضلع میں ملا زمت کرے ۔آخرکار1998میں ان کا تبا دلہ گرلز کا لج سیدو شریف سے گر لز کا لج چترال میں ہو ا اُسی وقت گورنمنٹ گرلز ہائی سکول دنین کے دو کمروں میں انٹر میڈیٹ کا لج کی بنیا د رکھی گئی چترال میں کوئی خا تون لیکچرر نہیں تھی۔ دوسرے اضلاع سے جنکو چترال بھیجا گیا وہ کا لج پہنچتے ہی اپنی تبدیلی کے لئے سر گرم ہو گئیں ۔یو ں گر لز کا لج کا خواب شرمندہ تعبیر ہو نے کے باوجود ایک خواب ہی رہا جب میڈم گل حمیرہ اپنے خا وند زبیر احمد انصا ری ، دو بچیوں عائشہ انصاری اور میمونہ انصاری کے ہمراہ چترال پہنچ گئیں تو کا لج کو اپنا کا لج سمجھ کر اس میں دلچسپی لی انہوں نے دیکھا کہ گر لز ہا ئی سکول دنین سے متصل چترال ایریا ڈویلپمنٹ پرا جیکٹ کے لئے پرا جیکٹ منیجمنٹ یونٹ کی عما رت زراعت کے بین الاقوامی فنڈ کی ما لی مدد سے تعمیر ہوئی تھی یہ عالمی معیار کی عمارت تھی 1999تک پرا جیکٹ کے زیر استعمال رہی پر اجیکٹ ختم ہونے کے بعد عمارت کے ایک حصے کو ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ یو نٹ نے دفتر بنا لیا ، دوسرے حصے میں ضلعی انتظامیہ نے اسسٹنٹ کمشنر کا دفتر قائم کیا ، تیسرے حصے میں محکمہ تعمیرات یعنی سی اینڈ ڈبلیو کا دفتر قائم ہوا جس کے جتنا بس چلا اس نے اتنا داﺅ چلا یا پرو فیسر گل حمیرہ نے عمارت کو گرلز کا لج کے لئے مو زوں قرار دیکر ڈائر یکٹر ایجوکیشن کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ڈائریکٹر کے عہدے پر ڈاکٹر عبد الروف فائز تھے انہوں نے پوری صورت حال اس وقت کے گورنر افتخا ر حسین شاہ کے سامنے رکھ کر تعاون کی استدعا کی انہوں نے مو قع پر جا کر گر لز کا لج کے دو کمروں کا جا ئزہ لیا پھر نئی عما رت کا معائنہ کر کے تین محکموں کو حکم دیا کہ 24گھنٹے کے اندر عما رت کو خا لی کیا جائے ابھی 24گھنٹے نہیں گزرے تھے کہ پی ایم یو کی عا لی شان عما رت گر لز کا لج کو مل گئی یہ کا لج کا ہارڈ وئیر تھا اس میں کا میابی کے بعد پرو فیسر گل حمیرہ نے سافٹ وئیر کی طرف توجہ دی یکم جون 2000ءکو اگلے گریڈ میں ترقی کے ساتھ ان کو پرنسپل مقر رکیا گیا۔ پرنسپل کی حیثیت سے انہوں نے کا لج میں داخلے کےلئے جناح کا لج اور فرنٹیر کا لج کے طرز کا میرٹ مقرر کیا ان کا خیال تھا کہ تعلیمی معیار کی بہتری کے لئے داخلے کے وقت مطلوبہ قابلیت کی طا لبات کو تر جیح دینا ضروری اور لا زمی ہے اس کے ساتھ انہوں نے وائس پر نسپل میڈم مسرت اور دیگر سٹاف کو لیکر کلا س روم کے اندر پڑ ھا ئی‘ لیبارٹری اور لائبریری کے کا موں پر توجہ دی مسا فر طا لبات کے لئے ہاسٹل کا انتظام کیا اور ہر شعبے میں اپنی انتظا می صلا حیتوں کا لو ہا منوا لیا کا لج کے اندر ونی امتحا نی نظا م کو بہتر ین خطوط پر استوار کیا نقل کی حو صلہ شکنی کی 2005ءمیں چترال کے اندر مو بائل فون کا نیٹ ورک آیا تو کا لج میں مو بائل فون لیکر آنے پر پا بندی لگا ئی اور اس پا بندی پر سختی کیساتھ عمل در آمد کر وایا نو مبر 2016ءمیں اپنی ریٹا ئر منٹ تک پرو فیسر گل حمیرہ نے کا لج کی تعلیمی اور انتظا می امور کے ساتھ ساتھ سما جی اور فلا حی امور پر بھی توجہ دی نادار طا لبات کے لئے اپنی جیب سے وظیفے مقرر کئے طا لبات کے علا ج معا لجے کے لئے ہسپتال جا نے کی نو بت آئی تو دیکھا کہ انتظا ر گاہ میں کر سیاں نہیں ہیں انہوں نے اپنے گھر سے وسائل لا کر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتال چترال کے انتظار گاہ کے لئے معیاری کر سیوں کا عطیہ پیش کیا ان کی قابلیت ان کے اخلاص اور ان کی شبا نہ روز محنت کی وجہ سے پورے چترال میں ان کا نا م روشن ہوا ان کی نگرانی میں کا لج کی طا لبات نے میڈیکل کا لجوں کے ٹیسٹ بھی پا س کئے صو بے کے ہائیر ایجو کیشن ڈیپارٹمنٹ نے بھی آپ کی صلا حیتوں کا اعتراف کیا آج ان کی کمی چترال کے تعلیمی حلقوں میں شد ت سے محسوس کی جا رہی ہے ۔یہ تو ایک اٹل حقیقت ہے کہ تعلیم کا شعبہ قربانی اور خلوص کا جس قدر تقاضا کرتا ہے شاید ہی کسی اور شعبے میں ان عناصر کا اس قدر اہم کردار ہو۔ دو شعبہ ہائے زندگی میں آنے والوں کا ان شعبوں کے ساتھ والہانہ لگاﺅ اور مشنری جذبہ ضروری ہے ۔ ایک صحت کا شعبہ ہے اور دوسرا تعلیم کا۔ صحت کے شعبے کا تعلق انسانی جسم سے ہے تو تعلیم کے شعبے کا تعلق انسانی روح اور شعور سے ہے ۔ اسلئے تو ان دونوں شعبوں میںایسے افراد کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے جو یہاں پرمشنری جذبے سے آئے ہوں اور اپنے مقصد کے حصول کیلئے اپنی پوری توانائیوں کو کام میں لانے کیلئے تیار ہوں۔ مرحومہ پروفیسر گل حمیرہ نے یقینا یہ ثابت کیا کہ اگر مقصد کے حصول کیلئے لگن اور عزم ہو تو کوئی مرحلہ مشکل نہیں اور کوئی کام ناممکن نہیں۔ انہوںنے جو کارنامے انجام دئیے ہیں ان کی تفصیل کیلئے شاید اس کالم کی جگہ محدود ہے ۔پھر بھی ان جیسی شخصیات کی یادوں کو تازہ رکھنے کیلئے مختصر تذکرہ بھی کافی ہے ۔